• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے عدالت سے یکطرفہ خلع لینے کا حکم

استفتاء

میں نے سات سال پہلے خلع لیا تھا ، میرا شوہر مجھے ذہنی اذیت دیتا تھا اور مارتا تھا اور شراب بہت زیادہ پیتا تھا اور اب بھی وہ عادی ہے میں اس کو بہت منع کرتی تھی اور بہت غصہ بھی کرتی تھی لیکن  اس نے وہ عادت نہیں چھوڑی اور میں نے پاکستان آکر عدالت کے ذریعے  خلع لیا۔ اب وہ نہ طلاق دیتا ہے اور نہ خلع نامے پر سائن(دستخط ) کرتا ہے اس کو بہت کہا کہ سائن (دستخط) کردے یا طلاق دے لیکن نہیں مانتا، اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی نے شوہر کے جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ کرنے کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی درخواست دی ہے اور عدالت نے شوہر کے بیوی پر تشدد کرنے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دی ہے، لہذا عدالت کے فیصلے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذ کورہ صورت میں تنسیخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا بیوی پر جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ کرنا  لہذا عدالتی خلع شرعا  بھی موثر ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر الخلیل (228/5) میں ہے:

 (ولها التطليق بالضرر) ش: قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیہ الدسوقى (345/2) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من وعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر……….

(قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة و تكون بائنة كما فى عبق

حیلہ ناجزہ (104 ) میں ہے:

ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الاطلاق المولى و المعسر وسواء أوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به” انتهى

فتاوی عثمانی (462/2) میں ہے:

 یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved