- فتوی نمبر: 29-93
- تاریخ: 07 جولائی 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے خاوند اور سسرال والوں کے رویے نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مجھے خلع لینا پڑا، لڑائی جھگڑا کرتے تھے، گھر کے کام کاج کرنے کے بعد جب کھانا کھانے کی باری آتی تو لڑائی جھگڑا شروع کردیتے جس کی وجہ سے ٹینشن ہوتی تو کھانا بھی سکون سے نہیں کھایا جاتا تھا۔ میرے دو بچے تھے ان سے بدتمیزی کرواتے، میرا خاوند چھوٹی چھوٹی بات پر طعنہ زنی، گالم گلوچ کرتا اور مارتا پیٹتا تھا جس سے میرے جسم پر نیل پڑجاتے، میں اپنے خاوند اور سسرال والوں کے ظلم برداشت کرتی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور ان کی خدمت کرتی ،رشتے کے لحاظ سے اور ثواب کی نیت سے۔ لیکن ان کے دل سے کینہ اور بغض نہیں جاتا تھا، خاوند والدین کے کہنے پر مارتا اور جان سے مارنے کی دھمکی دیتا۔ میں والدین کے پاس آجاتی تھی وہ پھر صلح کرکے لے جاتا اور اگلے دن ہی کہتا کہ تم چلی جاؤ، تیرہ سالوں میں مسلسل جھگڑا رہا اور چار دفعہ سمجھوتہ کیا اور باتیں طے کرکے صلح کرتا تھا اور مانتا تھا کہ میں ایسے ہی کروں گا تو پھر ایک بات پر بھی پورا نہیں اترتا تھا بلکہ اپنے گھر لے جاکر اور زیادہ تنگ کرتا تھا اور طعنے دے کر لڑتا جھگڑتا ، بدلے لیتا تھا، میں خاندانی تھی والدین کی عزت کی خاطر ہر ظلم برداشت کرتی اور رشتے کو نبھانا چاہتی تھی، لیکن وہ مجھے بیوی نہیں سمجھتا تھا اور نہ کوئی اہمیت دیتا تھا، وہ مجھے نوکرانی سمجھتا اور گھر والے بھی نوکرانی بناکر رکھتے تھے میرے خاوند نے میری عزت نہیں کی، نہ دوسروں سے کروائی میں نے گھر بسانے کی خاطر ہر طرح کے حالات برداشت کرنے کی کوشش کی اور اب میرے میں اتنی ہمت نہیں کہ میں اپنے خاوند اور سسرال والوں کی مار کھاؤں مجھے نفرت ہوچکی ہے، وہ مجھے چھوڑتا بھی نہیں اور اپنے پاس رکھ کر ذلیل کرتا تھا ، مجھے میرے والدین، بہن، بھائیوں سے نہ ملنے دیتا تھا، میں نے اس کی رضامندی کے لیے اپنے میکے والوں کو 5 ماہ چھوڑا لیکن میرے گھر کے حالات بجائے بدلنے کے اور بھی خراب ہوگئے اب میرے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد میرا خاوند ہر تاریخ پر آیا لیکن خلع دینے کے لیے رضامند نہیں تھا، جج کے کہنے پر مجبور ہو کر انگوٹھا لگایا اور ایک طلاق وہ پہلے کنایہ لفظوں میں دے چکا تھا اور نکاح جدید سے میں دوبارہ اس کے گھر گئی تھی۔اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ میرا سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے؟کیا میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟
بیوی کا موقف :
جو صورتحال اوپر سوال میں مذکور ہے وہ سب حقیقت ہے میرا شوہر مختلف موقعوں پر مجھے مارتا تھا ایک دفعہ تو پنکھے کی ڈنڈی سے مارا اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ تھپڑ اور مکے مارے اور پاؤں سے بھی مارتا تھا ۔ میرے موبائل اس نے رکھ لیے تھے۔ آخری دفعہ جب میں اس کے گھر گئی تب بھی اس نے مجھے مارا اور اس کے بھائی نے بد تمیزی کی ۔ لہذا اب میں صلح نہیں کر سکتی ۔ میں با پردہ خاتون ہوں اس کی وجہ سے مجھے عدالتوں میں جانا پڑا ۔
شوہر کا موقف:
میری بیوی کے ساتھ ناچاقی ہو جاتی تھی۔خلع لینے کی نوبت اس لیے آئی تھی کہ بیوی کا کہنا تھا کہ میں تمہارے والدین کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ حالانکہ میرے والدین بوڑھے ہیں اور بیمار ہیں میں ان کو کہاں چھوڑوں ؟ اسی وجہ سے مجبورا اس کو والدین کے ساتھ رکھا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ بیوی کو اس کے گھر سے لینے گیا تو ان لوگوں نے مجھے مارا جس سے میری آنکھ بھی زخمی ہو گئی لیکن میں نے برداشت کیا ۔ میں نے بھی ایک دفعہ بیوی کو دستی پنکھے سے مارا تھا جس کی وجہ سے بیوی کے جسم پر نیل پڑ گئےتھے، تین چار ڈنڈیاں ایک طرف ماری اور تین چاردوسری طرف، اس کے علاوہ کبھی نہیں مارا ۔ جب انہوں نے مجھے مارا تھا اس کے بعد ہماری صلح ہو گئی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ والدین ساتھ نہیں رہیں گے چنانچہ میں نے اس کو علیحدہ گھر میں رکھا پھر ہم اکھٹے رہنے لگے ۔آہستہ آہستہ اس نے خود والدین سے معافی مانگی اور ساتھ گھر لے آئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ لڑنا شروع کر دیا اور کہہ دیا کہ ان کے ساتھ نہیں رہنا ۔ پھر میرے ہم زلف اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ اپنے والدین کے پاس چلی گئی اور بالآخر خلع کا کیس کر دیا ۔میں نے وہاں بھی خلع قبول نہیں کیا تھا لیکن عدالت نے پھر بھی خلع کی ڈگری جاری کر دی ۔ اس سے تقریبا چھ ماہ پہلے بھی ہماری صلح ہوئی جب وہ میرے ساتھ گھر آئی تو اس کے والد اس سے ناراض ہو گئے اور چھ ماہ تک بات چیت نہیں کی وہ کہہ رہے تھے کہ اگر اب تو گئی تو میرا تیرا رشتہ ختم ۔ اس دوران والد اس سے فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے ۔ اس مرتبہ جب ناراض ہو کر گھر گئی تو ان لوگوں نے خلع کا کیس کر دیا ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی نے شوہر کے جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ کرنے کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی درخواست دی ہے اور عدالت نے شوہر کے بیوی پر تشدد کرنے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دی ہے، لہذا عدالت کے فیصلے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے۔
نوٹ: مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذ کورہ صورت میں تنسیخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا بیوی پر جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ کرنا لہذا عدالتی خلع شرعا بھی موثر ہے۔
مواہب الجلیل شرح مختصر الخلیل (228/5) میں ہے:
(ولها التطليق بالضرر) ش: قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.
شرح الكبير للدردير مع حاشیہ الدسوقى (345/2) میں ہے:
(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من وعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر……….
(قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة و تكون بائنة كما فى عبق
بدائع الصنائع (2/334) میں ہے:
فإن تركت النشوز، وإلا ضربها عند ذلك ضربا غير مبرح، ولا شائن، والأصل فيه قوله عز وجل: واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن
حیلہ ناجزہ (104 ) میں ہے:
ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الاطلاق المولى و المعسر وسواء أوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به” انتهى
فتاوی عثمانی (462/2) میں ہے:
یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved