• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ذہنی مریض کے ترکہ کا اس کی زندگی میں وراثت کے طور پر تقسیم

استفتاء

میرا ایک عدد مکان رقبہ پانچ مرلہ*** میں ہے جو میرے خاوند کے پیسوں سے 1990 میں خریدا گیا تھا، میرے خاوند ذہنی بیمار ہیں، جس کی وجہ سے دکان خرید کر میرے بھائیوں نے میرے نام لگوا دیا تھا۔ میرے ماشاء اللہ ساتھ بچے ہیں، دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں، سارے بچے الحمد للہ شادی  شدہ ہیں۔

مختصراً عرض ہے کہ یہ دکان جو میرے نام ہے، 2003ء میں اپنی خستہ حالی کی وجہ سے گرانا پڑا۔ اور اسی کی از نو تعمیر کرنی پڑی، اس تعمیر میں 2003 میں مبلغ چالیس ہزار روپے بطور مدد کے میرے دو بھائیوں نے دیے اور بقیہ مکمل تعمیر کا خرچ میرے بڑے بیٹے محمد شاکر نے کیا اور محمد شاکر کا اس سلسلے میں ڈھانچہ کھڑا کرنے سے لے فنشنگ (تکمیل) تک تقریباً چھ لاکھ خرچ ہوا تھا۔ باپ کی بیماری کی وجہ سے میرے بڑے بیٹے نے ہر قسم کی گھر کی ذمہ داری بڑے احسن طریقے سے ادا کی ہے، بچیوں کی شادی اور چھوٹے بیتے کی شادی اور ہر قسم کے اخراجات میرے بیٹے محمد شاکر یوسف نے اٹھائے ہیں اور آج تک مکان کے اوپر ہر قسم  کا خرچ اس سے اپنے ذاتی پیسوں  سے کیا ہے۔

اب کسی مجبوری کی وجہ سے ہمیں یہ مکان فروخت کرنا پڑھ رہا ہے، جس کی موجودہ قیمت بتیس لاکھ روپے لگی ہے۔ اب اس مکان کی رقم کی تقسیم شرعی اعتبار سے کیسے کرنی چاہیے۔ مکان اگر آج پہلی حالت میں ہو تو اس کی موجودہ قیمت پلاٹ پانچ مرلے پندرہ لاکھ روپ، اس کا ملبہ، بجلی، گیس وغیرہ موجودہ قیمت زیادہ سے زیادہ اڑھائی لاکھ روپے بنتی ہے۔ 1500000+250000 =1750000۔

نوٹ: میں اور میرا خاوند حیات ہیں، 5 بیٹیاں اور 2 بیٹے۔

برائے مہربانی ہماری شرعی اعتبار سے اس کی تقسیم میں مدد کریں تاکہ کسی کا بھی حق کسی اور کے ذمہ نہ رہ جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

واضح رہے کہ وراثت کا تعلق وفات کے بعد سے ہوتا ہے، آپ کے خاوند چونکہ ابھی زندہ ہیں اس لیے یہ مکان فی الحال وراثت کے طور پر تقسیم نہیں ہو گا۔ البتہ اگر مکان کی موجودہ حالت میں اس کے مستحق لوگوں کا حق معلوم کرنا چاہیں تو اس کا جواب یہ ہے:

مکان کی جگہ آپ کے خاوند کی ملکیت ہے کیونکہ وہ ان کے پیسوں سے خریدی گئی ہے، جبکہ اس کی موجودہ عمارت آپ کے اور آپ کے اس بیٹے کے درمیان مشترکہ ہے جس نے اس کی تعمیر میں اپنا پیسہ خرچ کیا تھا۔ بیٹے کا خرچ کردہ پیسہ چھ لاکھ ہے اور آپ کا چالیس ہزار ، چھ لاکھ کا پندرہواں (15th) حصہ ہے۔ لہذا آپ تعمیر کے پندرہویں حصے کی حق دار ہیں اور باقی چودہ حصے آپ کے بیٹے کے ہیں۔

باہم تقسیم کے لیے یہ طریقہ اپنائیں کہ مکان کی قیمت لگائیں، اس میں سے خالی پلاٹ کی قیمت الگ کر لیں۔ یہ آپ کے خاوند کی ہے اور باقی رقم کو ایک اور پندرہ کی نسبت (Ratio) سے آپس میں تقسیم کر لیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved