• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی مریض کی طلاق

استفتاء

ایک آدمی جس میں مندرجہ ذیل کیفیات پائی جاتی ہیں:

1۔ غصہ کا دورہ پڑتا ہے تو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی تمیز کیے بغیر ایسی فحش گالیاں دیتا ہے کہ جو بھی سنتا ہے توبہ توبہ کرتاہے، یہ غصے کا دورہ وقتی ہوتا ہے، غصے کے بعد نارمل ہو جاتا ہے بلکہ بہت نرمی آ جاتی ہے۔

2۔ غصے میں جسم کا کانپنا غصے کے بعد حیرانگی میں ہاتھوں اور سر کا ہلانا اور بعد میں رونا اور معافیاں مانگنا، پھر اتنا نرم ہو جاتا ہے کہ بچے دس روپے مانگیں تو 100 یا 500 روپے دے دیتا ہے۔

3۔ بچوں کو اتنا سخت مارنا کہ اسے ہوش نہیں ہوتا کہ بچہ مر رہا ہے یا جی رہا ہے؟

4۔ کبھی کبھی چھوٹی بچی (مذکورہ شخص  چھوٹی بچی سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے) اور اس کی ہر فرمائش پوری کرتا ہے، سکول یونیفارم میں تیار ہوتی ہے اسے کہتا ہے کہ آج سکول نہ جاؤ عیش کرو، جبکہ  باقی

5۔ اکثر گھر میں آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ بچے ماں کے پاس کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو کہنا بیوی کو مخاطب کر کے کہ (جبکہ کوئی بات ناراضگی کی اس سے پہلے نہیں ہوتی کہنا) یا ان کو رکھ یا مجھ کو رکھ، پھر کوئی کھانے کی چیز دی جائے تو کہنا کہ پھینک دو۔

6۔ جب کوئی رشتہ دار گھر آتا ہے تو کہنا میں اس سے نہیں ملتا اور اندر جا کر بیٹھتا ہے، حالانکہ کوئی وجہ بھی ظاہرا نہیں ہوتی۔

7۔ محلہ کی مسجد میں نمازیوں سے جھگڑنا، گاؤں کے مجزوب شخص محمد علی کو مارتا ہے۔

8۔ مذکورہ شخص کچھ عرصہ پہلے ٹی بی کا مریض تھا اور 9 ماہ علاج ہوا اور اب بھی زیادہ دوائیں کھاتا ہے۔

9۔ مذکورہ شخص پاک آرمی میں ملازم تھا، جھگڑا کرنے کی وجہ سے رپورٹ خراب ہو گئی، تو ترقی روک دی گئی، حوالدار ریٹائرڈ ہوا، پھر نادرا میں ملازمت کرتا ہے وہاں بھی جھگڑنے کی وجہ سے تبادلہ ہوتا رہتا ہے، مذکورہ شخص حج کے لیے گیا وہاں یہی صورتحال رہی، ناراض ہو جاتا تو باقی لوگ اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔

چند دن قبل دفتر سے گھر آیا تو دیکھا کہ ماں چھوٹی بچی کو ڈانٹ رہی ہے، کیونکہ اس نے کمرے میں پیشاب کر دیا تھا، جس کی عمر چھ سال ہے، بیوی سے جھگڑا کیا، گالیاں دیں اور کہا مجھے زہر دے دو اور کہا یہ برتنوں میں اندر پیشاب کرے گی اور تم پھینکو گی، پھر بیوی کو تین طلاقیں دے دیں پھر کہا "میں نے تین بار کہہ دیا ہے”۔ کچھ دیر خاموش رہا پھر  شہر میں روتا چلاتا نکل گیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر بیوی سے اس طرح معافیاں مانگیں کہ پاؤں پڑ گیا اور سخت روتا رہا، کہ مجھے معاف کر دو۔ طلاق دینے کے بعد پیسٹل گولیوں سے لوڈ کر کے خود کشی کی کوشش کی اور شاید کر جائے یا کوئی اور نقصان کر دے۔

اب میاں بیوی گھر آباد رکھنا چاہتے ہیں۔ چار بچے ہیں اور باپ بچوں کو خرچہ دے رہا ہے۔ جب مفتیان کرام سے فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے ڈاکٹر کی رپورٹ لی جائے اور بغیر کسی سفارش کے بیماری کا سرٹیفیکیٹ لیا جائے۔ اب سرٹیفیکیٹ بھی لے لیا ہے اور اس کی کاپی ساتھ لف ہے۔ جو کیفیات اوپر بیان کی گئی حقیقت پر مبنی ہیں اور ان کی تصدیق بیوی بچے اور غیر دشمن قریپی رشتہ دار کرتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق نہیں ہوئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved