• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زیور کا ہدیہ یا قرض ہونا معلوم نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

*** اور *** دو سگے  بھائی تھے۔ *** بڑے اور *** چھوٹے تھے۔ *** کی شادی پر *** نے *** کو زیور بنا کر دیا جو بعد میں چوری ہو گیا۔یہ ہمیں معلوم نہیں کہ بطور ہدیہ دیا تھا یا بطور قرض دیا تھا، *** نے بیوی کو دوبارہ زیور بنوا کر دے دیا۔جب *** فوت ہوا تو اس کی بیوہ اپنا جہیز کا سامان لیکر چلی گئی لیکن زیور نہ لیا کیونکہ زیور حق مہر میں نہیں تھا لہذا زیور *** کی ماں کے پاس آگیا۔ *** کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے جنہیں دادی نے پالا۔ان میں سے *** کا بیٹا فوت ہو گیا تو دادی نے زیور دوبارہ *** کی بیوی کو دے دیا کہ یہ تو پہن لے کیونکہ ابتداء *** ہی نے زیور بنا کر دیا تھا۔ *** کی بیوی *** نے زیور اپنی ماں کے پاس رکھوا دیا جس کے بعد  *** کے چھوٹے بھائی نے ***  سے پوچھے بغیر  زیور لیکر بیچ دیا۔وقت گزرتاگیا ***،*** کی ماں،*** کا باپ،*** کی ماں،*** کے سارے بہن بھائی فوت ہو گئے اب *** کی اہلیہ *** اور *** کی بیٹی زندہ ہیں *** کی اہلیہ بوڑھی ہو چکی ہیں اور چند سال پہلے *** کی بیوی نے *** کی بیٹی کو اس زیور کے بارے میں بتایا جس پر *** کی بیٹی نے اپنی تائی(***کی اہلیہ)سے زیور کا مطالبہ بھی کیا اس لیے*** کی اہلیہ پریشان ہے کہ آیا وہ زیور کس کا تھا؟جو اس کے بھائی نے بغیر اجازت بیچ دیا تھا تا کہ *** کی اہلیہ پر آخرت میں کوئی بوجھ نہ ہو۔

وضاحت مطلوب ہے:کیا *** کی بیوی یا  اس کے ورثاء اقرار کرتے ہیں کہ پہلا زیو ر*** کا تھا؟

جواب وضاحت: *** کی  وفات پر اس کی بیوی، بچے اور زیور چھوڑ کرچلی گئی، بچے یعنی ورثاء بعد میں پیداہوئے انہیں اس زیور کا معلوم نہیں، نیز *** کی بیوی کہاں ہے؟ زندہ ہے یا نہیں؟ اقرار کرتی ہے یا نہیں؟ ہمیں معلوم نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ زیور *** کا تھا اور جو زیور*** نے *** کی شادی پر بنا کر دیا تھا وہ *** پر قرض تھا لہذا ***کے ورثاء پر لازم ہے کہ وہ *** کا قرض اتاریں اور*** کی اہلیہ پر لازم ہے کہ وہ *** کا زیور ***کے ورثاء کو واپس کرے۔اس لینے دینے میں حساب برابر ہو جائے تو ٹھیک ورنہ کمی بیشی کا حساب کتاب کر لیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں *** نےجو زیور *** کو بنا  کر دیا  اس کا *** کی ملکیت ہونا ثابت ہے۔ بعد میں اس کے  *** کے لیے ہدیہ ہونے پر کوئی ثبوت نہیں لہٰذا وہ زیور  *** پر قرض شمار ہوگا اور جو زیور *** نے اپنی بیوی کو بناکر دیا اس کے بیوی کے لیے ہدیہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں لہٰذا یہ *** کا شمار ہوگا۔

فتاوی کاملیہ (123)میں ہے:

قال العلامة محمد کامل الطرابلسي: سئلت فی رجل ادعیٰ علٰی اٰخر عقارًا انه ملكه تلقاه بالارث من ابيه فاجابه المدعیٰ عليه بانی اشتریته من ابیک حال حیاته بكذا وكذا من القروش وانه فی حوزی وتصرفی مدة  ت*** علٰی خمسین سنة مع حضورک وعلمک وسکوتک بلاعذر شرعی هل یکون جواب المدعیٰ عليه من باب الاقرار بالتلقی من ابيه فیحتاج الٰی بینة تشهد له بالشّراء ولاینفعه وضع الید والتصرف المدة المذکورة ولاتکون الحادثة من قبیل ما مضی عليه خمس عشرة سنة فاجبت نعم جواب المدعیٰ عليه من قبیل دعویٰ التلقی من مورث المدعی ودعوی التلقی من مورثه اقرار له بالملک ثمّ دعواه الانتقال اليه منه تحتاج الٰی بینة لان کل مدع یحتاج الی البینة ولاینفعه الید المدة المذکورة مع ا لاقرار المذکور ولیس هذا من باب ترک الدعویٰ بل من باب المواخذة بالاقرار ومن اقر بشیٔ لغیره اخذ باقراره ولو کان فی یده احقابًا کثیرة لاتعد افاده المحقق الرملی فی فتاویٰ الخیرية

درمختار (8/347)میں ہے:

(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا، اللهم (إلا إذا كان) فعل الغير (شيئا يتصل به) أي بالحالف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved