• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زیور کی زکوٰة میں قیمت فروخت معتبر ہے

استفتاء

میرے پاس پانچ تولہ زیور کی شکل میں سونا ہے، جس پر نگینے نہیں ہیں، اس سونے کا کیرٹ 20 ہے۔

1۔ اس کی زکوٰة کس قیمت کے اعتبار سے دی جائے گی۔ جس قیمت پر ہم نے سنار سے خریدا تھا؟ یا جس قیمت پر 20 کیرٹ کا سونا زیور کی ڈھلائی کے بغیر اب ملتا ہے؟ یا ہمارا یہ زیور اس حالت میں بازار میں جتنے پیسوں میں فروخت ہو سکتا ہے؟

2۔ پھر قیمت فروخت میں اگر اسی سنار کے پاس جائیں جس نے دیا ہے تو ریٹ زیادہ ہوتا ہے، اور اگر کسی اور کو بیچیں تو ریٹ کم ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں اس زیور کی زکوٰة اس قیمت کے اعتبار سے دی جائے گی جس قیمت پر یہ زیور بازار میں فروخت ہو گا۔

2۔ جس سنار نے یہ زیور بنایا ہے، اگر وہی سنار اس زیور کو خریدنے پر تیار ہے، تو اسی سنار کے ریٹ کے لحاظ سے اس زیور کی زکوٰة ادا کی جائے گی۔ کیونکہ عام طور سے جس سنار نے زیور بنایا ہے، اس سے زیادہ ریٹ دوسرا نہیں دیتا۔ ورنہ دو تین سناروں سے ریٹ لگوا لیں، اور جو زیادہ ریٹ لگائے۔ اسی کے لحاظ سے زکوٰة ادا کریں۔ کیونکہ یہ سب انفع للفقراء ہے۔

توجیہ: سونے کے زیورات کی زکوٰة کے مسئلے میں سنار کی قیمت خرید کا اعتبار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ زیورات کی زکوٰة کے مسئلے میں بعینہ اسی زیور کی قیمت لگانا ضروری ہے، جو معطی (زکوٰة ادا کرنے والے) کی ملکیت میں ہیں۔

ظاہر ہے کہ بعینہ اسی زیور کی قیمت معلوم کرنے کے لیے کہ جو معطی کی ملک میں ہے۔ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ ہم یہ معلوم کریں کہ مارکیٹ میں سنار بعینہ اس زیور کو کتنے میں خریدے گا۔ اور جتنے میں سنار اس زیور کو خریدنے کے لیے تیار ہو گا، یہ اس زیور کی قیمت ہی ہو گی، اور اسی لحاظ سے معطی زکوٰة ادا کرنے کا پابند ہو گا، اس جیسا زیور مارکیٹ میں سنار جس قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قیمت اس زیور کی نہیں، جو معطی کی ملک میں ہے اور نہ ہی معطی اس قیمت کے لحاظ سے زکوٰة ادا کرنے کا پابند ہے، البتہ وہ اپنی خوشی سے اس کے لحاظ سے زکوٰة ادا کر دے، تو یہ اس کی مرضی ہے۔ لہذا زیور کی زکوٰة کے مسئلے میں ہم سنار کی قیمت خرید کا اعتبار کرتے ہیں، نہ کہ سنار کی قیمت فروخت کا۔

شامی میں ہے:

(والمعتبروزنهما أداءً) أی من حیث الأداء یعنی یعتبر أن یکون المؤدٰی قدرالواجب عندالامام والثانی، وقال زفر  تعتبر القیمة، واعتبر محمد  الأنفع للفقراء. فلو أدی عن خمسة جیدة خمسة زیوفاً قیمتها أربعة جیدة، جاز عندهما وکره، وقال محمد  وزفر لایجوز حتی یؤدي الفضل…ولو کان له إبریق فضة وزنه مائتان، وقیمته ثلاثمائة إن أدی خمسة من عینه فلاکلام، أو من غیره جاز عندهما خلافاً لمحمد وزفر، إلا أن يؤدي الفضل ۔۔۔۔وأجمعوا أنه لو أدی من خلاف جنسه، اعتبرت القیمة حتی لو أدی من الذهب ما تبلغ قیمته خمسة دراهم من غیر الإناء، لم یجز في قولهم لتقوم الجودة عندالمقابلة بخلاف الجنس، فإن أدی القیمة وقعت عن القدر المستحق ۔(ص:70 ۔269،ج:3طبع دارالمعرفة،بیروت)

بدائع میں ہے:

وجملة الکلام فیه:أن مال الزکوٰة لا یخلو إما أن یکون عیناً وإما أن یکون دیناً، والعین لا یخلو إما أن تکون مما لایجري فیه الربا کالحیوان والعروض، و إما أن یکون مما یجري فیه الربا کالمکیل والموزون ۔۔۔۔ و إن کان مال الزکاة مما یجري فیه الربا من الکیلی والوزنی، فإن أدی ربع عشر النصاب، یجوز کیفما کان، لأنه أدی ما وجب علیه وإن أدی من غیر النصاب، فلا یخلو إما أن کان من جنس النصاب، و إما أن کان من خلاف جنسه، فإن کان المؤدی من خلاف جنسه بأن أدی الذهب عن الفضة، أو الحنطة عن الشعیر، یراعی قیمة الواجب بالاجماع، حتی لو أدی أنقص منها لا یسقط عنه کل الواجب، بل یجب علیه التکمیل، لأن الجودة فی أموال الربا متقومة عند مقابلتها بخلاف جنسها.

وإن کان المؤدی من جنس النصاب فقد اختلف فیه علی ثلاثة أقوال:

قال أبوحنیفة وأبویوسف رحمهما الله أن المعتبر هو القدر لا القیمة،وقال زفررحمه الله المعتبر هو القیمة، لا القدر. وقال محمد رحمه الله المعتبر ما هو أنفع للفقراء ۔ (ص:146.47 ،ج:2)۔۔۔۔۔۔ والصحیح اعتبار أبی حنیفة رحمه الله وأبی یوسف رحمه الله لأن الجودة فی الأموال الربویة ،لا قیمة لها عند مقابلتها بجنسها لقول النبیﷺ ” جیدها وردیئها سواء” إلا أن محمداًیقول أن الجودة متقومة حقیقة وإنما سقط اعتبار تقومها شرعاً لجریان الربا والربا اسم لمال یستحق بالبیع ولم یوجد والجواب:أن المسقط لاعتبارالجودة وهو النص مطلق فیقتضی سقوط تقومها مطلقاً إلا فیما قید بدلیل۔(ص:147،ج:2)

البحرالرائق میں ہے:

ذکر فی الجامع:لوفسدت الحنطة بما أصابها حتی صارت قیمتها مائة فانه یؤدي درهمین ونصفاً بلاخلاف إذا اختار القیمة، لأنه هلک جزء من العین، فسقط ماتعلق به من الواجب، وإن زادت في نفسها قیمة، فالعبرة لیوم الوجوب۔(ص:386،ج:2)

 

الفتاوی الہندیہ میں ہے:

المال الذی تجب فیه الزکاة إن أدی زکاته من خلاف جنسه، أدی قدر قیمة الواجب اجماعاً، وکذا إذا أدی زکاته من جنسه، وکان مما لایجري فیه الربوٰ، وأما إذا أدی من جنسه، وکان ربویاً، فأبوحنیفة وأبو یوسف رحمهما الله یعتبران  القدر لا القیمة۔ (ص :180 ،ج:1)۔

و يقوم في البلد الذي المال فيه و لو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه. (الدر المختار: 3/ 251، البحر الرائق: 2/ 400، فتح القدير: 2/ 167)فقط والله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved