• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زیور کے بارے میں میاں بیوی کے اختلاف کی صورت

استفتاء

بیوی کا بیان:

میرا نام *****ہے میں اپنے شوہر سے خلع لے چکی ہوں اور انہوں نے میری ملکیت میں رکھا گیا زیور جو دونوں طرف کا تھا مجھ سے زبردستی چھین لیا ہے۔میرے گھر کا زیور نصاب سے کم تھا مگر دونوں طرف کے زیورات کو ملا کر میری اجازت سے ہمیشہ زکوۃ دی جاتی تھی۔خلع سے چار سال پہلے انہوں نے میرے ذاتی اخراجات سے تقریباً ہاتھ کھینچ لیا تھا تو مجھے مجبوراً زیور کا کچھ حصہ بیچنا پڑا جس کے بدلے میں انہوں نے میری والدہ کی جانب کا زیور چھین لیا۔مجھے ساری زندگی کبھی نہیں کہا کہ یہ زیور مجھے صرف استعمال کی لیے دیا گیا ہے اور کسی بھی صورت مجھ سے واپس لے لیا جائے گا اب جھوٹ کہتے ہیں کہ میرے خاندان کا عرف ہے کہ طلاق وغیرہ کی صورت میں بیویوں کو زیور  نہیں دیا جاتا جبکہ ایسی کوئی بات اس وقت بھی نہیں کی جب میں نے مجبوراً زیور کا کچھ حصہ بیچا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر میں کسی ملازم کو موٹر سائیکل یہ کہہ کر دوں کہ یہ تمہاری ہے تو اس کی نہیں ہوجائے گی میرا مؤقف  یہ ہے کہ کاروباری معاملات میں سب جانتے ہیں کہ ایسی چیزیں لکھ کر دی جاتی ہیں مگر میاں بیوی کے درمیان ہر لین دین ہر وقت نہیں لکھا جاتا اور نہ ہی ان کے والدین اور بہنوئی اپنی بیویوں کو دیے جانے  والے ہر تحفہ کو لکھ کر دیتے ہیں یہ کسی گھر میں نہیں ہوتا۔میرے شوہر کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ جو مال انہوں نے مجھ پر خرچ کیا اس کے بدلے میں وہ میرا مال چھین سکتے ہیں۔شادی  کے کچھ  عرصہ بعد جب میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی تو میں نے تقریباً ایک سال بطور امانت ان کو اپنے پیسے دیے اور کہا بھی کہ میر ااکاؤنٹ کھلوادو انہوں نے نہیں کھلوایا یہ پیسے بھی واپس نہیں دیے۔ خلع سے تین ماہ پہلے گھر کا آدھا کرایہ جبرا وصول کیا جو 45000روپے بنتے ہیں وہ بھی نہیں دیتے اس دوران گھر کے اخراجات سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے مجبوراً زیور کا جو حصہ بیچا وہ بیوی کی حیثیت سے بیچا تھا لہٰذا خاندان کا عرف لاگو ہی نہیں ہوتا۔ کیا میں اپنی بچی کو تقریباً دو سال دودھ پلانے کا معاوضہ سابقہ شوہر سے لے سکتی ہوں؟

شوہر کا بیان:

  1. میری بیوی کہہ رہی ہیں کہ اس کا سونا نصاب سے کم تھا ہاں یہ نصاب سے کم تھا لیکن میں ہمیشہ گھر میں قابل ادائیگی زکوۃ اشیاء کی زکوۃ کا حساب کرتا تھا جن میں میری بیوی کا اور میرا سونا، نقدی، بینک میں رکھی ہوئی رقم،  لیا گیا قرض شامل ہیں۔ میرے پاس 2007ء سے اس زکوۃ کے تمام ریکارڈ موجود ہیں، میں نے جس طریقے سے والد کو زکوۃ دیتے ہوئے دیکھا میں نے بھی وہی طریقہ گھر میں جاری رکھا ***کا یہ کہنا  کہ میں نے ہمیشہ زکوۃ دینے سے پہلے اس سے اجازت لی تھی درست نہیں ہے میں صرف یہ بتاتا تھا کہ تمام زکوۃ دینے لگا ہوں اس کا ہر گز مطلب اجازت لینا نہیں ہے۔
  2. اس کا یہ الزام جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے کہ اس کے خرچے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا بلکہ سال 2013ء کے بعد باجودیکہ میں سخت مالی مشکلات کا شکار تھا مگر ہر مہینے ایک لاکھ روپے سے زیادہ گھر کا خرچہ میرے کوٹ کی جیب میں موجود ہوتا تھا جو کہ ہم  دونوں مل کر خرچ کیا کرتے تھے میں اس کی طرف سے ہونے والے خرچے کا حساب  کتاب پوچھتا تو کبھی پورا حساب نہیں دیتی تھی، تقریباً تین سال ایسے گزرے جس دوران میں اسے جیب خرچ نہیں دے سکا نکاح میں جیب خرچ کے بارے میں میرا  اس کے ساتھ کوئی واجباتی معاہدہ نہیں تھا نہ ہی میرے لیے جیب خرچ دینا لازم تھا وہ کبھی اچھے کپڑوں اور بہترین کھانوں سے محروم نہیں رہی۔ میرے کاروباری ساتھی نے میرا سارا پیسہ لے لیا اور مجھے نقصان ہوا ،  ****نے کہا کہ وہ سونا بیچ دے گی جو ہماری طرف سے تھا میں نے کہا کہ یہ تمہارا  نہیں ہے اور میں اسے فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس نے نافرمانی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر اجازت  کے فروخت کر دیا۔
  3. شادی کے موقع پر اس کو مالکانہ حقوق کے ساتھ سونا نہیں دیا تھا یہ میرے والدین نے خریدا تھا اور وہ تصدیق کرتے ہیں کہ ***کو کبھی بھی مالک نہیں بنایا گیا شادی کے دوران یہ واضح نہیں کیا گیا کہ  وہ کسی بھی معاملے  میں ***کی ملک ہے۔ ہمارے خاندان کا یہ عرف ہے کہ شادی میں جو زیورات بیوی کو پہنائے جاتے ہیں وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتے اور اسے طلاق یا خلع کے وقت واپس کرنے پڑتے ہیں یہ سونا بیوی کے پاس استعمال کے لیے ہوتا ہے۔
  4. جو چیزیں میں نے ****کو تحفہ کے طور پر دیں وہ ان کی ملکیت میں ہیں میرے والدین کی طرف سے دیے گئے سونے سے نو (9) تولے تو پہلے ہی فروخت کر چکی ہیں اور وہ اس کا نہیں جیسا کہ اوپر بتایا ہے میرا موقف ہے کہ کوئی دوسرا کسی چیز کا مالک جب تک نہیں بنتا جب تک اس کو مالک نہ بنایا جائے چاہے وہ کاروبار  ہو یا شادی  کا معاملہ۔
  5. ****پر ہونے والے اخراجات جن میں کھانا، کپڑے، دوائیاں اور تحائف وغیرہ شامل ہیں میں کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا اس نے میرے بارے میں یہ بات غلط لکھی ہے۔
  6. یہ 2002ء سے 2003ء کے درمیان کی بات ہے کہ میری نوکری بحرانوں میں تھی تنخواہ تین ماہ سے نہیں دی گئی تھی ***گھر میں طلباء کو پڑھاتی تھی وہ رقم گھر پر خرچ کرتی تھی اس وقت مجھے گھر میں بہت سارے معاملات پر سمجھوتا کرنا پڑا جیسے  وقت پر کھانا نہ کھانا اور گھر کے کاموں پر توجہ نہ دینا جب ***گھر میں پیسے خرچ کر رہی تھی تو اس نے کہا میری مدد کر رہی ہے ***نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مجھے یہ رقم قرض دے رہی ہے ایک سال کے بعد اس نے کہا کہ ایک بیوی کا حق ہے کہ وہ جب چاہے اپنے پیسے کا مطالبہ کرے اس بات پر مجھے بہت حیرت ہوئی جہاں تک مجھے یاد ہے اس نے مجھ سے پیسے واپس لے لیے تھے لیکن اب وہ دعوٰی کر رہی ہے کہ اس نے نہیں لیے۔
  7. وہ مجھ سے خلع لینے کے بعد میرے ساتھ رہتی رہی کیونکہ وہ بطور بیوی نہیں رہی اور نہ ہی اپنے والدین کے پاس جارہی ہے لہٰذا میں نے اس سے کہا کہ میں آپ کے اخراجات اُٹھانے کا پابند نہیں رہا اس نے خود جواب میں کہا تھا کہ وہ کرائے کی نصف رقم ادا کرے گی لہٰذا اس نے تین ماہ کی نصف ادائیگی کی لیکن وہ زیادہ وقت تک رہتی رہی میں نے اس پر کسی طور پر زبردستی نہیں کی۔
  8. جب سونا اس کا تھا ہی نہیں اور میں نے اسے بیچنے سے بھی روکا تھا اس کے علاوہ واضح طور پر آگاہ کیا کہ یہ اس کا نہیں پھر بیوی ہونے کے ناطے زبردستی اسے کیسے بیچ سکتی ہے اس نے میری نافرمانی کی۔ مزید یہ کہ وہ میرے ساتھ بطور بیوی بھی نہیں رہ رہی تھی ڈیڑھ سال سے زیادہ وقت تک مجھ سے الگ سوتی رہی۔

مزید وضاحت از ****خاتون:

والد اور شوہر نے زیور کا کچھ حصہ بیچا تو ***صاحب غصہ ضرور ہوئے لیکن نہ ہی انہوں نے اور نہ ان کے والد  نے مجھے کہا کہ یہ تمہیں استعمال کے لیے دیا تھا۔ زیور میری ملکیت تھا میں ان سے پوچھ کر استعمال نہیں کرتی تھی اور انہوں نے میری ملکیت میں رکھا ہو  زیور چوری کیا اگر ان کا تھا تو مجھ سے مانگا کیوں نہیں، پھر جب میں روئی تو ****نے کہا کہ میں تمہیں واپس کر دوں گا یہ اس وقت بھی نہیں کہا کہ تمہیں استعمال کے لیے دیا تھا یا تم خلع مانگ رہی ہو تو یہ تمہارا نہیں ہے۔ہمیشہ مجھ سے پوچھ کر  زکوۃ دیتے تھے یہ مفتی صاحب سے پوچھ  کر آئے تھے کہ  مالک کی اجازت سے زکوۃ دی جاتی ہے اگر اسے معلوم تھا کہ مالک ان کے والد ہیں تو یہ والد سے اجازت کیوں نہیں لیتے تھے مجھ سے اجازت کیوں لیتے تھے۔بحیثیت شوہر میں نے پیسے انہیں مالک بنا کر نہیں دیئے تھے ان کی دین کی سمجھ کمال کی ہے کہ میں ساری زندگی تم پر خرچ کرتا رہا ہوں لہٰذا اب یہ پیسے انہیں واپس نہیں کروں گا۔ابھی خلع نہیں ہوئی تھی اور میں عدالت بھی نہیں گئی تھی انہوں نے  45000روپےآدھے کرائے کی مد میں لیے تھے۔عدالت میں انہوں نے جو کاغذات جمع کرائے تھے ان میں انہوں نے لکھا ہے کہ زیور کے مطابق مفتیان  کرام جو  فیصلہ کریں گے اس کے مطابق زیور کا فیصلہ کیا جائے۔جامعہ اشرفیہ کے دیے گئے فتوے منسلک ہیں ہم دونوں  نے فتوی الگ الگ لیا اور ایک ہی جیسا نتیجہ نکلا جامعہ اشرفیہ کو بار بار ***کا فون کرنے  پر ہمیں ایک ساتھ آنے کو کہا گیا ایک مفتی  صاحب نے ***کو تفصیل سے سنا لیکن مجھ سے بہت کم تفصیلات کے بارے  میں پوچھا  اور فوری طور پر تبصرہ کیا کہ سونا ***کا ہے جب میں نے ان سے پہلے دیے گئے فتووں کے بارے میں بات کی تو ان کے پاس کوئی ٹھوس نکتہ نہیں تھا  جس پر مفتی زکریا صاحب نے ان کی مخالفت کی بعد میں مفتی زکریا صاحب نے ہم دونوں کو فتوی  لینے کے لیے الہلال مسجد جانے کو کہا وہ غلط کہہ رہی ہیں کہ فتوی اس کے حق میں دیا گیا ہے۔ یہ صرف ان دونوں کے درمیان ہی بات ہو رہی تھی وہ مفتی صاحب ایک دوسرے مفتی صاحب سے بات چیت کررہے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ سوال اگرچہ طویل ہے اور متعدد باتوں پر  مشتمل ہے، مگر بنیادی سوال اس زیور کی ملکیت کا ہے جو خاتون کو اس کے سسرال کی طرف سے شادی کے موقع پر پہنایا گیا تھا۔ اس زیور کی نسبت خاتون کا دعویٰ یہ ہے کہ سسرال کی طرف سے ان کی ملکیت کر دیا گیا تھا جبکہ فریق دوم ***(سابقہ خاوند) کا جواب یہ ہے کہ ملکیت نہیں کیا گیا بلکہ بطور عاریت کے دیا گیا تھا، اب زیور مالکانہ بنیاد پر دیا گیا تھا یا بطور عاریت دیا گیا تھا اس کا فیصلہ شوہر کے خاندان کے عرف کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا شوہر کے خاندان کا عرف کیا ہے اس کی تحقیق شوہر کے خاندان کے دین دار لوگوں سے کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved