- فتوی نمبر: 34-105
- تاریخ: 20 اکتوبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > بیع فاسد کے احکام
استفتاء
سونے کے کام سے متعلق ایک صورت کے بارے میں سوال پوچھنا ہے اس سے متعلق ابتدائی تفصیل یہ ہے کہ جو سنار خواتین کو زیورات فروخت کرتے ہیں ہمارے خیال میں 100 فیصد لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں یعنی انہیں 22 کیرٹ سونے کا زیور کہتے ہیں اور ان سے 22 کیرٹ کے پیسے لیتے ہیں لیکن واقع میں 16 کیرٹ سے لے کر 20 کیرٹ کا سونا دیتے ہیں صرف اعشاریہ ایک فیصد لوگ ایسے ہیں جو 22 کہہ کر 21 کیرٹ سونا دیتے ہیں ان میں سے بھی ایک دو لوگ ہیں جو زبان سے کہتے ہیں کہ سونا 21 کیرٹ ہے لیکن ہم آپ سے 22 کیرٹ کے پیسے لیں گے۔ ہم جب ان سناروں کو سمجھاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم 16 کیرٹ کے زیورکو 22 کیرٹ کے پیسوں میں بیچ رہے ہیں تو واپس خریدتے وقت بھی تو 22 کیرٹ کے حساب سے خریدتے ہیں۔ مارکیٹ کا دستور یہ ہے کہ جس سنار نے خواتین کو زیور بیچا ہے بل کے ساتھ زیور واپس آنے پر وہ سنار پابند ہے کہ واپس خریدے اور پھر سنار چونکہ مختلف کاریگروں سے زیور بنواتا ہے لہٰذا ہر کاریگر جب بھی کوئی زیور تیار کرتا ہے تو اس کی ایک جانب اپنا مارکہ لازمی لگاتا ہے تاکہ پہچان رہے خواتین سے زیور واپس خریدنے کے بعد سنار اس کاریگر کو بلاتا ہے جس کا مارکہ لگا ہوتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ تم بھی مجھ سے یہ زیور واپس لو۔ مارکیٹ کے دستور کے مطابق کاریگر بھی سنار سے وہ زیور واپس خریدنے کا پابند ہے کیونکہ سنا ر کے پاس واپس آنے والا زیور کم ہی ہوتا ہے آگے کوئی خاتون سنار سے وہ زیور اسی حالت میں خرید لے ورنہ سائز ، ڈیزائن، فیشن وغیرہ کی تبدیلی کی وجہ سے وہ زیور عموماً گلانا پڑتا ہے( اور چونکہ پاکستان میں زیور بنانے کے لیے بازار میں دستیاب خالص سونا سونا بیچنے والوں کی بے ایمانی کی وجہ سے 24 کیرٹ کا خالص کہنے کے باوجود کبھی بھی 24 کیرٹ خالص نہیں نکلتا بلکہ اس میں 2/1 کیرٹ کا فرق نکلتا ہے یعنی بجائے 24 کیرٹ کے2/1 23 نکلتا ہے) اس لیے سنا ر کاریگر کو کہتا ہے کہ تم مجھ سے واپس لیتے وقت2/1 کیرٹ کا فرق نکال لو لیکن مجھ سے لازمی واپس لو کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ اگر کاریگر نے زیور بناتے وقت آپس کی طے شدہ مقدار سے زائد کھوٹ ڈال دیا ہو تو سنار کے خود گلانے پر وہ کھوٹ زیادہ نکل آئے گا تو سنار کے پاس سونا کم آئے گا اور سنار کو نقصان ہوگا جب کہ کاریگر کو واپس دینے پر اگر کھوٹ زیادہ بھی ہو تب بھی سنار کو نقصان نہیں ہوگا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم زیورات کے کاریگر ہیں اور سناروں کو ان کے آرڈر پر کبھی ان کے سونے سے اور کبھی اپنے سونے سے زیورات بنا کر دیتے ہیں۔ جب سے سونا زیادہ مہنگا ہوا ہے زیورات کا کام کم ہو گیا ہے آرڈر پہلے کی بنسبت کم ہو گئے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ کچھ عرصے سے ہمیں ہول سیل کا کام کرنے والوں ( بڑے دکاندار جن کے اپنے کارخانے بھی ہیں ) کی وجہ سے بڑی پریشانی کا سامنا ہے وہ یہ کہ ہول سیلرز سناروں کو ہماری بنسبت مال بھی زیادہ فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ واپس کرتے وقت 2/1 کا فرق بھی نہیں لیں گے بلکہ آپس میں جو طے شدہ کیرٹ ہے اسی پر واپسی لیں گے مثلاً اگر سنار کو 16 کیرٹ کا زیور دے رہے ہیں تو اگر کل کو سنار واپس انہیں بیچنے آتاہے تو مارکیٹ کے دستور کے مطابق 2/1 کیرٹ کھوٹ کا فرق بھی سنار سے نہیں کاٹیں گے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم چونکہ واپس خریدتے وقت 2/1کیرٹ کا فرق کاٹتے ہیں تو ہول سیلر سے کام کرنے میں سنار کو 2/1 کیرٹ کا وہ فرق بھی بچ جاتا ہے تو سنار سمجھتا ہے کہ اسے ہم جیسے کاریگر وں سے کاروبار کرنے میں نقصان ہے۔
واضح رہے کہ ہول سیلرز جب 2/1 کیرٹ کا فرق نہیں لیتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو بازار سے ملنے والا سونا 24 کیرٹ پورا ہوتا ہے بلکہ ان کو بھی 2/1 23 کیرٹ ہی ملتا ہے لیکن وہ آپس میں طے شدہ مقدار سے بھی زائد کھوٹ ڈالتے ہیں اور سنار ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہم کاریگر اس کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ ہول سیلر سے اسے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ باقی رہا گاہک تو ان کی بلا سے گاہک کو 22 کیرٹ کے پیسے دے کر 15 کیرٹ سونا ملے۔ سنار کو صرف اپنا فائدہ اور اپنا نقصان پیش نظر رہتا ہے۔
اس صورت میں ہمارا کام تقریبا ختم ہو گیا ہے تو کیا شریعت ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ہم بھی سنار سے نئے رواج کے مطابق معاملہ کریں یعنی کھوٹ زیادہ ڈالیں اور سنار کو بتا دیں اس میں کھوٹ زائد ہے مثلا ہمارا آپس کا طے شدہ 20 کیرٹ سونا تھا اور اب ہم اسے 18 یا 16 کیرٹ کر دیں اور واپسی خریدتے وقت بھی اپنے گاہک یعنی سنار سے نئی شرح کے مطابق 2/1 کھوٹ کے فرق کے بغیر معاملہ کریں۔ اس صورت میں اگرچہ خواتین کو نقصان ہوگا لیکن خواتین کو تو سنار پہلے سے نقصان پہنچا رہا ہے آج سے پہلے بھی جب ہم سے بنواتا تھا تو ہمیں پابند کرتا تھا کہ جتنا کیرٹ کہوں اتنا سونا ڈالنا لازمی ہے لیکن اس کے باوجود وہ خواتین کو دھوکہ دیتا تھا جیسا کہ ہم نے شروع میں وضاحت کر دی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جس دکاندار کے بارے میں آپ کو یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ دکاندار آگے گاہک کو کھوٹ کی صحیح مقدار نہیں بتا کر بیچے گا ایسے دکاندار کو بیچنا آپ کے لیے جائز نہیں ،آپ کو بھی ناجائز کام میں تعاون کا گناہ ہوگا ، البتہ جس گاہک کے بارے میں یقین یا غالب گمان نہ ہو تو ایسے دکاندار کو بیچ سکتے ہیں ، اور اگر اس طرح کاروبار نہ چلتا ہو تو کوشش کریں کہ کوئی اور کاروبار یا کام کرلیں البتہ جب تک دوسرا متبادل نظم نہ ہوسکے تو بقدر ضرورت مذکورہ کام کر سکتے ہیں البتہ ساتھ توبہ استغفار بھی کرتے رہیں اور سنجیدگی سے متبادل کی پوری کوشش کرتے رہیں ۔
ہندیہ (4/471) میں ہے:
ويجوز بيع البربط والطبل والمزمار والدف والنرد وأشباه ذلك في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى وعندهما لا يجوز بيع هذه الأشياء قبل الكسر ذكر المسألة في إجارات الأصل من غير تفصيل وذكر في السير الكبير تفصيلا على قولهما فقال إن باعها ممن لم يستعملها ولا يبيع هذا المشتري ممن يستعملها فلا بأس ببيعها قبل الكسر فإن باعها ممن يستعملها أو يبيعها هذا المشتري ممن يستعملها لا يجوز بيعها قبل الكسر قال شيخ الإسلام رحمه الله تعالى ما ذكر من الإطلاق في الأصل محمول على التفصيل المذكور في السير كذا في الذخيرة
درر الحکام (3/441) میں ہے:
(كره بيع السلاح من أهل الفتنة) لأنه إعانة على المعصية (وإن لم يدر أنه منهم لا) أي لا يكره
امداد الفتاوی (3/133)میں ہے:
سوال: گھی ، عنبر، مشک وغیرہ مصنوعی تیار کیا جاوے اوریہ کہہ کر یہ اصلی نہیں مصنوعی ہے کم قیمت پر اس کو فروخت کیا جاوے کیا یہ بھی دھوکہ وخداع وناجائز ہے یانہیں ؟
الجواب:یہ دھوکہ نہیں ہے جائز ہے البتہ ورع کے خلاف اس لئے ہے کہ مشتری سے خداع کا احتمال ہے، اور اس کی بیع ایک درجہ میں اس کا سبب ہے۔ (حوادث اول وثانی ص ۲۱)(لہذا جہاں معلوم ہو کہ دکاندار آگے دھوکہ دے گا وہاں جائز نہ ہوگا کیونکہ وہاں صرف احتمال نہیں ہے بلکہ معلوم ہے۔از ناقل )
زیورات کے مسائل ، مفتی عبدالرؤف سکھروی (ص:108) میں ہے:
دکاندار اور کاریگروں کو حتی الامکان خالص سونے کی ملاوٹ میں عالمی معیار کی پابندی کرنی چاہیے اس سے ہٹ کر نہیں کرنی چاہیے اس سے بازار میں ان کی ساکھ بنے گی اور اعتماد بحال ہوگا جو ایک کاریگر اور تاجر کے لیے بہت قیمتی چیز ہے اور اگر کوئی کاریگر یا دکاندار دونوں معیاروں سے ہٹ کر ملاوٹ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس شرط کے ساتھ شرعاً اس کی اجازت ہے کہ خالص سونے یا چاندی میں وہ جس قدر بھی ملاوٹ کرے کاریگر اس کو دکاندار پر اور دکاندار اس کو خریدار پر پوری سچائی سے واضح کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved