• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ضلع لودھراں کے گاؤں حقراں میں جمعہ سے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

محترم المقام مفتی صاحب!ہمارا ضلع لودھراں میں موضع واہی پھتو چنڑ ہے جس کے تحت ایک گاؤں ہے "حقڑاں”جس کی آبادی وغیرہ کی تفصیل درج ذیل ہے:

افراد 1200،دوکانیں7،ہائی سکول ( لڑکوں کا) تعداد  ( 330)ہائی سکول گرلز( بچیوں)کا315)پولیس چوکی (1)،ڈسپنسری(1)،جانور ڈسپنسری(1)،کنڈا ٹرالی(1)،پٹرول پمپ    (1)،کیا اس آبادی میں جمعہ پڑھنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  تفصیل کے مطابق”حقڑاں” کی مجموعی صورتحال بڑے قصبے کی ہے اور بڑے قصبے میں جمعہ درست ہے۔

في الشامية3/8

وعبارة القهستانى وتقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها اسواق.

امداد الاحکام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 756 میں ہے:

سوال: حنفیہ کے نزدیک ایسے گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں جس کی تعریف حسب ذیل ہے:

آبادی 1948 ہے جس میں مسلمان مختلف قومیں آباد ہیں، شیخ، پٹھان، زمیندار، راجپوت ،نومسلم، لوہار، بڑہئی، نائی،دھوبی، قصائی، تیلی منہیار، درزی، تیر گر، ڈوم،خرادی،نداف،جولاہا،سقہ،عطار،پنساری ، بزاز وغیرہ وغیرہ،وسط گاؤں میں مسلسل دو طرفہ تقریبا 40 دکانیں ایک ڈاکخانہ ایک ہی مسجد ہے مع حوض نہایت عالیشان ہے پہلے سے جمعہ ہوتا آیا ہے، اب اختلاف ہوا ہے،

جواب: اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اور شہر و قصبات میں صحیح ہے۔ قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی 4000 کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو، جس میں دکانیں چالیس پچاس متصل ہو ں اور بازار روزانہ لگتا ہو، اور اس بازار میں ضروریات روزمرہ کی ملتی ہو ں مثلاجوتہ کی دکان بھی ہو، کپڑے کی بھی، عطار کی بھی ہو، بزاز کی بھی، غلہ کی بھی دودھ گھی کی بھی اور وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہو معمارو مستری بھی ہو وغیرہ وغیرہ اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو اور پولیس کا تھانہ چوکی بھی ہو اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں،پس جس بستی میں یہ شرائط موجود ہوں گی وہاں جمعہ صحیح ہوگا ورنہ صحیح نہ ہوگا۔

 قال فی رد المحتار عن ابي حنيفة انه بلدة كبيرة فيها سكك واسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على انصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه او علم غيره يرجع الناس اليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الاصح….. قلت اقمنا البوليس وقيامه مقام الوالى  لرجوع الناس اليه في الحوادث والرساتيق المحلات والقرى التابعة لها و قال في الغنية المتملي والفصل في ذلك ان مكة والمدينة مصر  ان تقام بها الجمعة من زمنه عليه الصلاة والسلام الى اليوم فكل موضع كان مثل احدهما فهو مصر فكل تفسيرلايصدق على احدهما فهو غير معتبر ثم صح الرواية التي ذكرناها عن الامام وقال قال قاضي خان والاعتماد على ما روي عن ابي حنيفة كل موضع بلغت ابنيته مني وفيه مفتى وقاض فهو مصر جامع وعن محمد ان كل موضع مصره الامام فهو مصر حتى أنه لو بعث إلى قرية نائبا لإقامة الحدود والقصاص تصير مصرا فإذا عزله تلحق بالقرى ووجه ذلك ماصح انه كان لعثمان عبدا اسود أميرا على الربذة ليصلى خلفه ابوذر وعشرة من الصحابة الجمعة وغيرها،ذکرہ ابن حزم فی المحلی اھ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved