• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ذمہ میں دین کی رقم سے مضاربت

  • فتوی نمبر: 6-95
  • تاریخ: 23 جولائی 2013

استفتاء

میں نے 80 ہزار روپے قرض کے طور پر دیے اور جب ادائیگی کا وقت آیا تو مقروض نے کہا کہ ان پیسوں سے بھینس خریدتا ہوں جو نفع ہو گا وہ آپس میں تقسیم کریں گے، پھر بھینس خرید کر بیچ دی اور مجھے 5000 روپے دیے، باقی مجھے معلوم نہیں کہ بھینس کتنے میں خریدی اور کتنے میں بیچی؟ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ 5000 روپے میرے لیے لینا جائز ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ معاملہ کرنا جائز نہیں، لہذا بھینس کا سارا کا سارا نفع مقروض شخص کا ہوگا اور قرض دینے والے کو صرف اس کا قرض ملے گا۔

و أما المضاربة بدين فإن علی المضارب لم يجز و إن علی ثالث جاز و كره.

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تحت قوله (لم يجز) و ما اشتراه له و الدين في ذمته و قوله (و إن علی ثالث) فأن قال اقبض مالي علی فلان ثم اعمل به مضاربةً و لو عمل قبل أن يقبض الكل ضمن و لو قال فاعمل به لا يضمن و كذا بالواو لأن "ثم” للترتيب فلا يكون مأذوناً بالعمل إلا بعد قبض الكل بخلاف "الفاء و الواؤ”. و لو قال اقبض ديني لتعمل به مضاربةً لا يصير مأذوناً ما لم يقبض الكل (بحر) قال في الهامش: قال في الدرر: فلو قال اعمل بالدين الذين في ذمتك مضاربة بالنصف لم يجز. بخلاف ما لو كان له دين علی ثالث فقال اقبض مالي علی فلان و اعمل به مضاربةً حتی لا يبقی لرب المال فيه يد. (رد المحتار: 8/ 500- 501) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved