• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زنا کے بعد نکاح کر سکتے ہیں یا نہیں؟

استفتاء

مفتی صاحب میں نے سترہ سال کی عمر میں زنا کیا تھا ،اس کام میں جو میرا ساتھی  تھا اس کی عمر اٹھارہ سال تھی، ہم نے یہ عمل دبر سے کیا تھا شرم گاہ کے آگے کے حصے سے نہیں ، میں جانتی ہوں کہ دبر سے جماع کی اجازت میاں بیوی کو بھی نہیں ہے لیکن ہم اس وقت شیطان کی گرفت میں تھے۔ ہم نے یہ حرکت دو سے تین بار کی تھی، اس کے بعد بھی ہم چند دفعہ ملے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ہم توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سچی توبہ کر لیں توسورہ نور کی آیت نمبر 3 کے مطابق ہمارا آپس میں نکاح کرنا حلال ہے اور اگر کہیں اور نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہماری توبہ قبول ہوجائے گی؟

وضاحت مطلوب ہے کہ سورہ نور کی آیت نمبر۳ سے آپ کو کیا اشکال ہوا ہے؟

جواب وضاحت :اس آیت کاحصہ ” وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ "کا ظاہری مطلب جو سمجھ میں آیا اس کے مطابق زانی سے نکاح حرام ہے تو کیا اگر وہ توبہ کرلیں تو نکاح جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ فعل اگر چہ بہت بڑا گناہ  ہےجس پر فوری طور پر توبہ و استغفار لازم ہے،اگر سچے دل سے توبہ کرلی اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کاعزم کرلیا تو اللہ تعالی سے معافی کی امید ہے۔ البتہ اس  گناہ کی وجہ سے آپس میں نکاح کرنے میں  یا کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔سورہ نور کی آیت نمبر ۳ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ کی تفسیر میں مختلف اقوال ذکر کیے گئے ہیں ،ایک تفسیر کے مطابق  اس سے مراد  زنا ہے کہ مومنین پر زنا حرام کیا گیا ہے ،اورایک تفسیر اس کی یہ ہے کہ ایسا نکاح جو زانیہ کے ساتھ زانیہ ہونے کی حیثیت سے کیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئندہ بھی وہ زنا میں مبتلاء رہے یا کسی مشرک عورت کے ساتھ کیا جائے  یہ مسلمانوں پر حرام کیا گیا ہےپھر بھی اگر زانیہ عورت سے نکاح کرلیا تو نکاح منعقد ہوجائے گااگرچہ اس کا گناہ الگ سے ہوگا، لیکن اگر وہ توبہ کرلیتے ہیں توپھر حرام بھی نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ (۲۱۳)میں ہے:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: التائب من الذنب كمن لا ذنب له

آپ ﷺ نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا  ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں

در مختار ((140/4میں ہے:

( و ) صح نكاح الموطوءة ( بزنى ) أي جاز نكاح من رآها تزني وله وطؤها بلا استبراء وأما قوله تعالى { والزانية لا ينكحها إلا زان } فمنسوخ بآية { فانكحوا ما طاب لكم من النساء }

تفسیر روح المعانی (387/18)میں ہے:

ولا يشكل صحة نكاح الزاني المسلم الزانية المسلمة وكذا العفيفة المسلمة، وعدم صحة نكاحه المشركة المذكورة فی الآية اذا فسرت بالوثنية بالاجماع لان ذلك ليس من اللياقة وعدم اللياقة من حيث الزنا بل من حيثىة اخری يعلمها الشارع كما لا يخفی وعلی هذا الطرز قوله { والزانية لا ينكحها إلا زان او مشرك} ای الزانية بعد ان رضیت بالزنا فولغ فيها كلب شهوة الزاني لايليق ان ينكحها من حيث انها كذلك الا من هو مثلها وهو الزانی او من هو اسوا حالا منها وهو المشرك۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved