• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زنا سے توبہ کے لیے عورت سے معافی مانگنا ضروری ہے یانہیں؟

استفتاء

ایک شخص نے کسی  عورت سے اس کی رضامندی سے زنا کیا یا کسی مرد سے اس کی رضامندی سے بدکاری کی تو اب توبہ کے لیے اس عورت و  مرد سے بھی  معافی مانگنی ضروری ہے یا  نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زنا سے توبہ کرنے کے لیے جس عورت سے زنا کیا ہو اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے اسی طرح جس مرد سے بدکاری کی گئی  ہو اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں خصوصاً جبکہ زنا عورت کی رضامندی سے کیا گیا ہو یا بدکاری مرد کی رضامندی سے کی گئی ہو۔

توجیہ: زنا حق العبد میں سے نہیں ہے بلکہ حق اللہ میں سے ہے لہٰذا جب حق العبد تلف نہیں کیا گیا تو بندے سے معافی کی ضرورت بھی نہیں۔

امداد الفتاویٰ (4/552) میں ہے:

سوال: اگر کوئی شخص کسی خاوند والی عورت سے زنا کرے تو یہ گناہ صرف توبہ کرنے سے معاف ہوجاوے گا یا کہ خاوند کے معاف کرانے سے معاف ہوگا۔زنا حق العبد ہے یا حق اللہ ہے ان دیا رمیں اس بارہ میں اختلاف ہے،بعض کہتے ہیں شوہر سے معاف  کرانا ضروری نہیں توبہ سے معاف ہوجاوے گا اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں”التائب من الذنب كمن لاذنب له”یہ حدیث اس باب میں قابل سند ہے یانہیں؟ بعض کہتے ہیں کہ بغیر شوہر سے معاف کرائے معاف نہ ہوگا اور دلیل میں حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام اور اوریاؓ کا قصہ پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں میں کون حق پرہے؟

الجواب: أخرج الستة عن ابى هريرة  وزيد بن خالد الجهنى رضى الله تعالى عنهما ان اعرابيااتي النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله انشدك بالله الا قضيت لى بكتاب الله الى ان قال ان ابنى كان عسيفا على هذا فزنى بامراته وفيه قال صلى الله عليه وسلم لاقضين بينكما بكتاب الله تعالى الوليدة والغنم رد عليك وعلى ابنك جلد مأته وتغريب عام الحديث واخرج مالك وابوداؤد وعن ابن المسيب ان رجلا من اسلم يقال له هزال شكى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم الى قوله فقال النبى صلى الله عليه وسلم يا هزال لو سترته بردائك لكان خيرا لك كذا في التيسير روایۃ اولیٰ دال است برآں کہ حضور ﷺ بجز حد شرعی چیزے نفرمودہ پس اگر عفو کنانیدن از زوج ضروری بودے لامحالہ برآں تنبیہ فرمودے وروایت ثانیہ دلالت می کند براحبیت ستر ایں چنیں امر وظاہر است کہ از عفو کنانیدن از زوج مستلزم ست افشارا پس غیر محبوب خواہد بود واجب بودن شے باغیر محبوب بودنش جمع نمیتواں شد پس مقتضائے ہر دو دلیل برآں برآمد کہ عفو کنانیدن بجز حق تعالیٰ از کسے ضروری نیست، بلکہ گونہ خلاف قیاس حیا ست وستر افضل است وسردریں آنست کہ ایں امر شنیع از حقوق اللہ است  زیراکہ اگر از حقوق العباد  بودے پس بایستی باذن مستحق جائز بودے وایں باطل محض است وقصہ اوریا اولا ثابت نیست ثانیاً آنرا بمتنازع فیہ مس نیست زیراکہ برتقدیر ثبوت حق اوریا آں بود کہ مقصود از فرستادنش امرے بود کہ اورا خبر نبود، ثالثاً شرائع من قبلنا ہرگاہ خلاف قواعد شرع ما باشد حجت نیست وحق آنست کہ آں قصہ بے اصل محض است وحدیث التائب من الذنب كمن لاذنب له دلیل کافی ست دریں باب فقط

امداد الفتاویٰ (4/371) میں ہے:

سوال: زید نے مسماۃ ہندہ منکوحہ  عمرو سے بحالت حیاتِ عمرو زنا کیا، کیا زید سوائے حق اللہ کے عمرو کا بھی خطاکار ہوگیا، پھر یہ حق اللہ وحق العبد دونوں توبہ سے معاف ہوجاویں گے یا نہیں یا توبہ کے ساتھ عمرو سے بھی معاف کرانا ضروری ہوگا اور کیا بایں ہمہ بھی کچھ گناہ باقی رہے گا؟

الجواب: کہیں تصریح تو دیکھی نہیں لیکن قواعد شرعیہ اس کو مقتضی ہیں کہ چونکہ اس صورت میں یہ فعل موجب ہتک عرض شوہر ہوا ہے اس میں گناہ زیادہ ہوگا جیساکہ حدیث میں اسی بناء پر حلیلۂ جارکی تخصیص وارد ہے، باقی یہ کہ کیا شوہر سے بھی معاف کرانا پڑے گا سو قواعد  ہی کا یہ بھی مقتضیٰ معلوم ہوتا ہے کہ قبول توبہ کے لیے یہ شرط نہیں کیونکہ یہ ہتک عرض لازم آگیا اس کا قصد نہیں کیا گیا،وشتان بین اللازم والمقصود۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved