- فتوی نمبر: 4-330
- تاریخ: 21 فروری 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
الحمد للہ آج بندہ ناچیز کی مستعار زندگی کا 76 واں سال شروع ہورہا ہے، اگر چہ پل بھر کا اعتبار نہیں۔ خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ خاتمہ بالایمان ہوجائے۔ اس تحریر کا سبب بھی یہی ہے کہ بندہ وقت اجل سے قبل اپنے اثاثوں کے متعلق شرعی مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
1۔ میرے اثاثوں میں ایک دس مرلہ مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ اس کی تعمیر نو دس سال قبل بندہ نے دس لاکھ میں کروائی تھی مگر یہ والد صاحب ے نام پر تھا اور دوسرے بھائی وہاں مقیم تھے، ان کا انتقال 2008ء میں ہوا۔ قبل از انتقال کئی ماہ قبل والد صاحب نےمکان ہذا میرے نام ہبہ کیا، جس کی تحریر ہے گواہ موجود ہے۔ دیگر بھائیوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ وہ اس تحریر پر راضی ہیں۔
2۔ میرے دو بیٹے ہیں ایک ملازم ( سرکاری ) ہے شادی شدہ ہے ( عمر35 سال )، دوسرا بیٹا طالب علم ہے ( یونیورسٹی میں) اور ایک زوجہ ہیں (عمر 55 سال )، علاوہ ازیں ایک پوتا ( عمر 20سال ، یونیورسٹی طالب علم )، ایک پوتی ( عمر 18 سال طالبہ )۔ ان کے والد ( میرے سب سے بڑے بیٹے ) 1998ء میں انتقال کر گئے تھے، جبکہ بیوہ اعلیٰ ملازمت کر رہی ہے۔ علیحدہ مقیم ہے۔ شادی بھی کر لی۔
3۔ میری ذاتی اراضی میں ساڑھے تین کنال کا رقبہ ہے جو قابل کاشت ہے، مگر کبھی کاشت نہ ہوئی۔
4۔ بنک میں میرے تقریبا دو لاکھ روپے ہیں (غیر سودی )۔
5۔ میں 1996ء میں کالج سے ریٹائر ہوا، اب پنشن پر گذر اوقات ہے۔
جناب من! اب للہ میری راہنمائی فرمائیں کہ اپنے ان اثاثوں کو شرعی لحاظ سے میں کس طرح تقسیم کروں کہ ہر حصہ دار کو اس کا شرع حق مل جائے اور میں اس لحاظ سے سر رو ہو سکوں۔ وصیت لکھوں تو کیسے اور ہبہ کروں تو اس کا طریقہ کار (شرعی) کیا ہونا چاہیے۔ اپنا مقصد رضائے حق ہے اور ہلکا پھلکا ہو کر قبر میں جانا ہے۔ نہ کہ کسی کا حق دبا کر یا ناانصافی کر کے۔ اس سے قبل بھی آپ حضرات سے میں نے رجوع کیا اور آپ نے مجھے شرعی راستہ دکھایا۔
نوٹ: والد صاحب دوسرے بھائی کے پاس رہے تھے۔ میں جس مکان میں رہتا تھااور جس کی میں نے دوبارہ تعمیر کرائی تھی۔ والد نے مجھے دیا اور نام بھی کروایا۔ پوتا اور پوتی اپنی ماں کے پاس ننھیال میں رہتے ہیں، ہمارے ہاں سے کافی عرصہ ہوگیا ہے چلے گئے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر آپ شرعی وراثت کی وصیت کرنا چاہتے ہیں شرعی وراثت یوں گی۔ کل 16 حصے کر کے زوجہ کو 2 حصے ہر بیٹے کو 7 حصے۔
اگر پوتے ، پوتی کے حق میں وصیت کرنا چاہیں تو ایک تہائی ترکہ تک وصیت کر سکتے ہیں۔ اور اگر زندگی میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو پوتے ، پوتی کو جو دینا چاہیں وہ دے کر اپنی زوجہ کے لیے اور اپنے لیے کچھ روک کر باقی دونوں بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کر دیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved