• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائداد تقسیم کرنا

استفتاء

کل چارمکان ہیں۔ 2مکان والد کے نام ہیں۔  2مکان والدہ کے نام ہیں۔

ہم9 بھائی ہیں اور 5 بہنیں ہیں۔

ایک بھائی فوت ہوچکے ہیں تین سال پہلے۔ ان کے چار بچے اور ایک بیوہ موجود ہیں ۔

ایک بھائی ذہنی مریض(مفلوج) ہے

والدین حیات ہیں اور وہ پراپرٹی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وراثت کے طریقے پر ۔

(1)والدین کیا رکھیں گے ۔؟

(2)بیٹوں کا کیا حصہ بنے گا ؟

(3)بیٹیوں کا کیا حصہ بنے گا؟

(4)بھائی کی بیوہ کا کیا حصہ بنے گاجو بھائی فوت ہو چکا ہے اس کی بیوہ مراد ہے.

(5)جو بھائی ذہنی مفلوج ہے اس کا کیا بنے گا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

5-4-3-2-1 وراثت وفات کے بعد ہوتی ہے زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کرنا انہیں ہدیہ دینا ہوتا ہے۔

لہذا والدین اگر اپنی زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپنی ضرورت کی بقدر کچھ رکھ کر باقی جائداد لڑکے لڑکیوں میں برابر تقسیم کر دیں۔اور اگرچاہیں تو فی لڑکی ایک،ایک اور فی لڑکا دو،دو حصے بھی دے سکتے ہیں۔

جو بیٹا ذہنی مفلوج ہے اس کو بھی ایک لڑکے کے برابر حصہ دے دیں البتہ اگر اس کی ذہنی حالت کے پیش نظر زیادہ دینے کی ضرورت ہو تو زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔

جوبیٹافوت ہوچکاہےاس کےحصےکےبرابراس کےبیوی بچوں کودےدیں۔

شامی (4 / 444) میں ہے:

ورد في الحديث أنه – صلى الله عليه وسلم – قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى.

ہندیہ(7/ 391)میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved