• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زندگی میں تقسیم میراث کی صورت

استفتاء

گذارش یہ ہے کہ ہم سات بہنیں ایک بھائی ہیں والدہ حیات ہیں جبکہ والد صاحب چودہ برس پہلے انتقال کرگئے تھے ۔ والد  صاحب کا ایک مکان تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی آدھا والدہ کے نام کردیا تھا اورآدھا مکان والد کے نام ہے والدہ یہ چاہتی ہیں کہ اپنا آدھا مکان اپنے بیٹے کے نام کردوں ،ایک ہی میرا بیٹا ہے ویسے بھی مہنگائی کادور ہے گھر بنانا بہت مشکل کام ہے اورآدھا مکان جو والد کے نام ہے اس میں سے بہنوں کو وراثت کا حصہ دے دیا جائے والدہ کےلیے ایسا کرنا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:(۱)والد صاحب نے آدھا مکان والدہ کےنام کس وجہ سے کیاتھا؟(۲)آپ کی بہنوں  کی مالی حالت کیسی ہے ؟(۳)کیا بہنیں والدہ کے مذکورہ عمل پر راضی ہیں؟(۴)مکان کتنے مرلے کا ہے؟(۵)آپ کا ذریعہ آمدن کیا ہےاور آمدنی کتنی ہے؟اوراخراجات کیا ہیں؟(۶)جو بہنیں راضی ہیں وہ اپنے راضی ہونے کی تحریر دے سکتی ہیں ؟اگر دے سکتی ہیں تو وہ مہیا کریں(۷)جو راضی  نہیں ہیں ان کے ذہنوں میں کیا وجہ ہے؟وہ بھی تحریری طور پر مہیاکریں ۔اتنی تفصیل ہم اس لیے مانگ رہے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ آج ہم آپ کی تحریر پر فتوی دیں اورکل کو آپ کی بہنوں کی طرف سے سوال آجائے اورپھرہمیں ان کی تحریر پر بھی فتوی دینا پڑے جو ممکن ہے کہ آپ کو دئیے گئے جواب کے خلاف ہو جو آپ کے لیے بھی نقصان دہ ہو ارادارے کی ساکھ کےلیے بھی نقصان دہ ہو۔

جواب وضاحت(۱)والدہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کے ابو نے کہا تھا کہ آنے والے وقت میں بیٹیاں آجاسکیں اور تمہیں اختیار ہے جو چاہے کرو مکان کا ،تمہیں سب اختیار ہے ۔(۲)بہنوں کے ماشاءاللہ اپنے گھر ہیں اورحالات ٹھیک ہیں (۳)کچھ راضی ہیں کچھ راضی نہیں(۴)مکان 7مرلے کا ہے(۵)میں حکیم ہوں آمدن تقریبا 50ہزار ہے کچن کاخرچہ ہی پورا ہوتا ہے(۶)اس وقت تحریر بینی  ذرا مشکل ہے البتہ ایک بہن کا انتقال ہوگیا ہے دوبہنیں راضی ہیں ،تین بہنیں راضی نہیں ہیں اور ایک بہن کا علم نہیں راضی ہیں یا نہیں؟(۷)جو راضی نہیں ہیں ان کے ذہنوں میں یہ وجہ ہے کہ یہ ہمارا شرعی حق ہے ہم اپنا حق نہیں چھوڑیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ماں یا باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ دینا چاہے تو اس میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو برابر دے اوریہ بھی جائز ہے کہ لڑکے کو دوحصے اورلڑکی کو ایک حصہ دے اور اگر کسی معقول وجہ سے کسی لڑکے لڑکی کو دواورایک کی نسبت سے بھی کم وبیش دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے البتہ لڑکیوں کو بالکل نہ دینا اورلڑکے کو سارا دیدینا خاص کرجبکہ لڑکیاں راضی بھی نہ ہو ں یہ جائز نہیں۔

مذکورہ صورت میں آدھے مکان میں تو لڑکیاں ویسے ہی وارث ہیں اس میں سے دینے نہ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اورجوآدھا ماں کی ملکیت میں ہے وہ سارا لڑکے کو دیدینا اور لڑکیوں کو بالکل نہ دینا جبکہ بعض لڑکیاں راضی بھی نہیں ،یہ جائز نہیں ۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved