• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

1۔زندگی میں اگر کسی کو حصہ دے دیا ،کیا وفات کے بعد بھی وہ مثراث کا حقدار ہے؟2۔میراث کی تقسیم کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے دادا کا انتقال 2007میں ہوا،ا ن کی میراث میں تین مرلہ کا مکان تھا ۔میرے والد صاحب پانچ بہن بھائی ہیں، دوبھائی ،تین بہنیں ۔2004میں میر ے چچا نے کہا کہ میرا جتنا میراث میں حصہ بنتا ہے وہ دے دیں تو میرے والد صاحب نے اس وقت اپنی طرف سے تینتالیس ہزار تین سو تینتیس روپے دیئے تھے اور معاہدہ نامہ بھی ہوا تھاکہ جتنا میرے چچا کا حصہ بنتا ہے وہ ان پیسوں کےبدلے میرے ابو کو بیچتے ہیں جس کی تحریر ساتھ لف ہے ۔اب میرے والد صاحب چاہتے ہیں کہ میرے پاس جو دادا کی میراث ہے اس میں سے جتنا حصہ ہماری پھوپھیوں کا بنتا ہے وہ دے دوں ۔ یاد رہے کہ میرے والد صاحب نے اس مکان کی درستگی پر سات لاکھ روپے لگائے ہیں۔اب دو مسئلے ہیں :

۱۔ کیا اب میرے چچا (جو اپنا حصہ دادا کی زندگی میں لے چکے ہیں )کیا ان کا میراث میں حصہ بنتا ہے ؟

۲۔ اور ہماری پھوپھیوں کا حصہ کتنا ہے اور کس لحاظ سے دیا جائے گا؟اب کے لحاظ سے یا اس وقت (دادا کی وفات ) کے حساب سے؟

۳۔            میری ایک پھوپھی کا انتقال 2016میں ہوا اور ان کے بچے نہیں تھے اور شوہر کا انتقال پہلے ہو چکا تھا ان کے دو بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں ۔اس کے بارے میں بھی بتادیں کہ ان کا حصہ کس کس کو جائے گا ؟

نوٹ:         یاد رہے میرے والدصاحب نےاپنی تینوں بہنوں (میری پھوپھیوں)کی اپنی طرف سے شادی بھی کی اور جہیز وغیرہ چھوٹا موٹا بھی اپنی طرف سے دیا ۔اب کیا یہ دادا کی میراث میں سے کٹوتی ہو گا کہ نہیں؟

نوٹ:(۱)چچا کے مطالبے پر والد صاحب نے ان کو حصہ دیا ۔(۲)والد صاحب نے پھوپھیوں کو ان کی شادی پر جو کچھ دیا وہ ہدیہ دیا تھا میراث کا سوچ کر نہیں دیا تھا اور چچا نے کچھ نہیں دیا ،(۳)مکان کی تعمیر میں پہلے صحن چھتا تھا اس پر چھت ڈالا پھراس کے بعد پرانا حصہ گھر کا گرا کر دوبارہ تعمیر کیا تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔مذکورہ صورت میں آ پ کے چچا کا آپ کےدادا کی میراث میں حصہ بنتا ہے کیونکہ آپ کے دادا کی زندگی میں آپ کا

چچا اپنے حصے کا مالک نہیں بنا تھا لہذا یہ غیر مملوک کی بیع ہوئی جو جائز نہ تھی ۔اب اگر آپ کا چچا آپ کے دادا کی میراث میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں :

۱۔        آپ کے والد نے آپ کے چچا کو جو پیسے دیئے تھے ان کے بدلے میں آپ کا چچا اپنا حصہ آپ کے والد کو اب بیچ دے ۔اس صورت میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔

۲۔        آپ کا چچا میراث میں سے اپنا حصہ لے لے اور آپ کے والد نے جو پیسے آپ کے چچا کو دئیے تھے ان کی 2004میں جتنی چاندی یا جتنا سونا آتا تھا اتنی چاندی یا اتنا سونا آپ کے والد کو دیدے ۔

۲۔        مذکورہ صورت میں کل مکان یا اس کی قیمت کے سات حصے کیئے جائیں گے جن میں سے ایک ایک حصہ آپ کی ہر پھوپھی کا ہو گا ۔قیمت موجودہ وقت کی لگائی جائے گی البتہ آ پ کے والد نے تعمیر میں جو اضافہ کیا ہے وہ منہا کرلیا جائے گا اور باقی کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

۳۔       آپ کی فوت شدہ پھوپھی کے حصےکو چھ حصوں  میں تقسیم کیا جائے گا اور دو ،دو حصے ہر بھائی کو اور ایک ،ایک حصہ ہر بہن کو ملے گا۔

۴۔آپ کے والد صاحب نے آپ کی پھوپھیوں کو ان کی شادی پر جو چیزیں دیں تھیں وہ  ہدیہ شمار ہوں گی۔ اس لیے پھوپھیوں کی میراث میں سے ان کی کٹوتی نہیں کی جاسکتی ۔

فی البحر364/9

واما بیان الوقت الذی یجری فیه الارث فنقول هذافصل اختلف المشایخ فیه قال مشایخ العراق :الارث یثبت فی آخرجزء من اجزاء حیاة المورث وقال مشایخ بلخ :الارث یثبت بعد موت المورث۔

فی ردالمحتار :525/10

وارکانه ثلاثة وارث ومورث وموروث وشروطه ثلاثة موت مورث حقیقة اوحکما کمفقود۔

فی الدرالمختار:527/10

هل ارث الحی من الحی ام من المیت؟المعتمد الثانی۔

تقسیم کی صورت یہ ہے:

7×6=42

بیٹا    ————–                     بیٹا          —————                    بیٹی—————-                     بیٹی———–                     بیٹی

————————-عصبہ

2×6                 2×6                       1                 1×6             1×6

12                             12                                            6                 6

 

6                                                           1×6=6

بھائی————                        بھائی————-بہن—————-                   بہن

—————————–                                         عصبہ

2                     2                 1                 1

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved