- فتوی نمبر: 9-209
- تاریخ: 21 نومبر 2016
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے متعلق کہ
1۔ ایک شخص کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اور اس شخص کی جائیداد میں کچھ مکانات اور کاروباری ذرائع مثلاً فیکٹری ہے۔ اب یہ شخص چاہتا ہے کہ اس کا کاروبار چلتا رہے اور تقسیم نہ ہو، اس کی خاطر وہ اپنا کاروبار اپنے بیٹے کو دے دے اور باقی اشیاء اس کے مرنے کے بعد میراث کے طور پر تقسیم ہوں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اور شرعی نقطۂ نظر سے اس میں کوئی قباحت تو نہیں؟
2۔ اور میراث میں سے مذکورہ وارثوں کا کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟
3۔ خاوند کی میراث میں سے بیوی کا کتنا حصہ ہوتا ہے اور بیوی کی میراث میں سے خاوند کا کتنا حصہ ہوتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ یہ شخص اپنا کاروبار اپنے بیٹے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی بیٹیوں کو بھی اپنے مال وجائیداد میں سے بیٹے کے برابر یا اس سے آدھا حصہ اپنی زندگی میں دیدے۔
2۔ ورثاء میں اگر صرف پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہو تو مال وراثت کے کل 7 حصے ہوں گے، اور بیٹے کو 2 حصے اور ہر بیٹی کو ایک، ایک حصہ ملے گا۔
3۔ خاوند کی اولاد نہ ہو تو بیوی کا خاوند کی میراث میں چوتھا حصہ بنتا ہے، اور اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ بنتا ہے۔ اور اسی طرح اگر بیوی کی اولاد نہ ہو تو خاوند کا بیوی کی میراث میں آدھا حصہ بنتا ہے، اور اگر اولاد ہو تو چوتھا حصہ بنتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
للذكر مثل حظ الأنثيين، فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك. (النساء)
در مختار میں ہے (8/583):
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة، لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده يسوي بينهم، يعطي البنت كالابن عند الثاني، ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
سراجی میں ہے:
أما للزوجات فحالتان، الربع للواحدة فصاعدة عند عدم الولد وولد الابن وإن سفل، والثمن مع الولد أو ولد الابن وإن سفل. (فصل في النساء: 7)
وفيه أيضاً:
وأما للزوج فحالتان: النصف عند عدم الولد وولد الابن، وإن سفل، والربع مع الولد أو ولد الابن وإن سفل. (7)……………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved