• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنا

استفتاء

میری ملکیت میں درج ذیل  اشیاء ہیں:

زرعی زمین پنڈی بھٹیاں ،رہائشی  پلاٹ وہاڑی اور LDAایونیوI لاہور، گاڑی، بینک میں رقم ،کارواش پراجیکٹ پنڈی بھٹیاں ، اشجار،ٹیوب ویل ،پیٹر برائے آبپاشی ۔

میرے تین بیٹے(دو فوت شدہ اور ایک زندہ)اور دو بیٹیاں ہیں جبکہ بیوی فوت ہو  چکی ہے ،میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ہی(کارواش پراجیکٹ کے علاوہ باقی) اپنےکل  مال کے کل 9 حصے بناؤں اوربیٹوں کو 2،2جبکہ بیٹیوں کو 1،1حصہ دوں اور ایک حصہ فوت شدہ بیوی کے نام سے صدقہ کروں۔فوت شدہ بیٹوں کا حصہ ان کے بیوی ،بچوں کو دوں گا۔

1)کیا یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے؟

اس کے علاوہ میں اپنے فوت شدہ دو بیٹوں کی اولاد اور ان کی بیواؤں کواور بھی دینا چاہتا ہوں۔ جس کی صورت  یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ کارواش پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنی زندگی   تک اپنے تصرف میں رکھوں اور اپنی موت کے بعد اس کی آمدنی میری بیوہ  بہوؤں اورمیرے پوتے پوتیوں (دونوں خاندانوں )میں  نصف نصف تقسیم ہو تاکہ میری طرف سے اور میری  فوت شدہ  بیوی کی طرف  سے صدقہ جاریہ ہو۔ اس پراجیکٹ کی زمین میری نہیں ہے بلکہ صرف آلات ہیں(جس كی قیمت تقریباً تین لاکھ روپے ہے) ۔میں نے ایک آدمی مقرر کیا ہے جو میرے مرنے کے بعد کارواش پراجیکٹ کی نگرانی کرے گا اوراس کی کل آمدنی میرے فوت شدہ بیٹوں کے خاندانوں میں نصف نصف تقسیم کرےگا(اپنے لیے کچھ نہیں رکھے گا)،اس آدمی کا کام صرف نگرانی کرنا ہے۔ کام کی ترتیب یہ ہے کہ وہ پراجیکٹ میں نے  دو بندوں کو ٹھیکے پر دیا ہے جوکہ باپ بیٹا ہیں اور ان کے ساتھ یہ طے کیا ہے  کہ چھٹی کے دنوں کو نکال کر جتنے بھی کام کے دن ہوں گے ،فی دن وہ مجھے تین سو  روپے دیں گے اور جتنے بھی خرچے ہوں گے اس کے ذمہ داروہ(باپ ،بیٹا) ہوں گے ۔  میں نے اس (نگران)کو کہہ رکھا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے یہ پراجیکٹ نہ چل سکےاور اس کو بیچنا پڑجائے  تو اس کا سامان  بیچ کر  اس کی قیمت کے تین حصے کرکے  میرے دو فوت شدہ بیٹوں کے خاندانوں میں اور تیسرے بیٹے میں(جوکہ زندہ ہے) تقسیم کردینا۔

2)شرعی لحاظ سے اس  کا کیا حکم ہے؟

میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دینی نقطہ نظر سے مستند تحریر عنایت فرمادیں تاکہ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو آگاہ کر سکوں اور میرے بعد لڑائی اور قانونی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔

تنقیح: فوت شدہ بڑے بیٹے کے سب بچے (2لڑکے،2لڑکیاں)بالغ ہیں اور چھوٹے بیٹے کے بچے (2لڑکے 2 لڑکیاں)نابالغ ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زندگی میں آدمی جو کچھ تقسیم کرتا ہے وہ شرعی لحاظ سے میراث نہیں ،بلکہ ہدیہ (Gift) ہوتاہے۔لہذا آپ کو اختیار ہے کہ آپ جتنا حصہ خود رکھنا چاہیں ،رکھیں اور  جس کو جتنا دینا چاہیں دے دیں۔

1)اس تفصیل کے مطابق  آپ کا (کارواش پراجیکٹ کے علاوہ باقی ) اپنے کل مال کو اپنی زندگی میں ہی  9حصوں میں تقسیم کرنا جائز ہے۔

2)مذکورہ وصیت جائز ہے بشرطیکہ آپ کے ورثاء آپ کی وفات کے بعد بھی اس پر دل سے رضامند ہوں تاہم اگر آپ وفات کے بعد بھی کل ورثاء یا بعض ورثاء اس وصیت پر رضامند نہ ہو ئے تو ان کا اس کارواش اور اس کی آمدن میں جو حصہ بنتا ہو گا وہ ان ورثاء کو دیا جائے گاجو بوقت ضرورت ہمارے دارالافتاء سے یا کسی اور دارالافتاء سے  پوری تفصیل بتا کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ سائل کا رواش پراجیکٹ کے علاوہ باقی تمام مال اپنی زندگی ہی میں تقسیم کردے گا اس لیے وفات کے وقت ان کی ملکیت  میں صرف کارواش پراجیکٹ بچے گا جو ان کا کل ترکہ ہو گا اس لیے اس کل ترکے کی وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہو گی اسی طرح اگر کارواش کے آلات کو فروخت کرنا پڑا تو قیمت کے ایک حصے کی وصیت بیٹے کے لیے ہوگی جو شرعی وارث ہے اس لیے بھی یہ وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگی۔

البنايہ شرح ہدایہ(7 ص 286) ميں ہے:

يتصرف المالك في ملكه كيف شاء

تنویر مع الدر(10/358)میں ہے:

وتجوز بالثلث للاجنبي عند عدم المانع وان لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه الا ان تجيز ورثته بعد موته

تنویر مع الدر(10/431)میں ہے:

‌‌باب الوصية بالخدمة والسكنى والثمرة

(صحت الوصية ‌بخدمة ‌عبده وسكنى داره مدة معلومة وأبدا) ويكون محبوسا على ملك الميت في حق المنفعة كما في الوقف كما بسط في الدرر (وبغلتهما فان خرجت الرقبة من الثلث سلمت اليه )اي :الى الموصى له (لها)اي : لاجل الوصية (والا)تخرج من الثلث (تقسم الدار اثلاثا) . . . . . . . . . . ولو اوصى بهذا العبد لفلان و بخدمته لاخر وهو يخرج من الثلث صح

. . . . . . . .تنبيه: ‌الغلة ‌كل ‌ما يحصل من ريع الارض وكرائها وأجرة الغلام ونحو ذلك

شامی میں ہے:

قوله(صحت الوصية ‌بخدمة ‌عبده وسكنى داره)اي لمعين. قال المقدسي ولو اوصى بغلة داره او عبده في مساكين جاز وبالسكنى والخدمة لا يجوز الا لمعلوم ، لان الغلة عين مال يتصدق به والخدمة والسكنى لا يتصدق بها بل تعار العين لاجلها والاعارة لا تكون الا لمعلوم وقيل ينبغي ان يجوز على قياس من يجيز الوقف الخ

قوله(فان خرجت الرقبة) أي رقبة العبد والدار في الوصية بالخدمة والسكنى والغلة وقيد بالرقبة لما في الكفاية أنه ينظر إلى الأعيان التي أوصى فيها فإن كان رقبها مقدار الثلث جاز ولا تعتبر قيمة الخدمة والثمرة والغلة والسكنى لأن المقصود من الأعيان منافعها فإذا صارت المنافع مستحقة وبقيت العين على ملك الوارث صارت بمنزلة العين التي لا منفعة لها فلذا تعتبر قيمة الرقبة كأن الوصية وقعت بها إ هـ

قوله(صح) فاذا مات الموصى له بالخدمة يعود الى الموصى له بالرقبة

قال الرافعی:

قول الشارح (ويكون محبوسا على ملك الميت )اي تكون العين باقية على ملكه موقوفة على حاجته مشغولة بتصرفه فتحدث المنفعة حينئذ على ملكه فتجوز الوصية بها لانه اوصى بما يملكه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved