• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں اپنے بعض بچوں کےنام کچھ زمین ہبہ کرنے کا حکم

استفتاء

(1)مسئلہ یہ ہے کہ ایک عورت  جس کے سات بیٹے ہیں وہ کچھ زمین اپنے دو بیٹوں کے نام کرنا چاہتی ہے جو   دو بیٹے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور باقی بچے کام وغیرہ کرتے ہیں اور الحمدللہ گھر کی زمین تقریباً 12 مرلہ ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے دو بچے کہتے ہیں کہ اگر آپ زمین وقف کرتی ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ ان دونوں کے نام کرتی ہو تو ہم اجازت نہیں دیتے اور یہ عورت اپنے دونوں بچوں کے نام کرنا چاہتی ہے اس مسئلہ کا کیا حل ہوسکتا ہے برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

(2)  وقف کا کیا حکم ہوتا ہے ؟(3)وقف کرنے سے بندے کے لیے کیا کام کرنا جائز ہوتے ہیں کونسے کام ناجائز ہوتے ہیں (4)مدرسے کے لئے زمین وقف کرنا کیسا ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے  :سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟دو بیٹوں کے نام کرنے کی وجہ کیا ہے؟زمین کتنی نام کرنا چاہتے ہیں؟باقی بچوں کے معاشی حالات کیاہیں؟کیا عورت وقف کرنےکیلیے تیار ہے؟اگر تیار نہیں ہے تو وقف  کا مسئلہ پوچھنے کی کیا  ضرورت ہے؟

جواب وضاحت:1۔میری والدہ  کی طرف سے سوال ہے

2۔اس لیے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

3۔6 مرلہ علیحدہ سے زمین لی ہے وہ نام کرنا چاہتی ہیں۔

4۔جی الحمدللہ،معاشی حالات ٹھیک ہیں،تنگی وغیرہ نہیں ہے،مکان تعمیر کرنا ہے اس کیلیے کمیٹی ڈالی ہوئی  ہے۔

5۔والدہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو ان کےنام کردوں گی،اگر شرعا کوئی مسئلہ ہو تو پھر نام نہیں کروں گی بلکہ وقف کردوں گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زندگی میں اولاد کو اگر کوئی چیز دی جائے تو سب کو برابر دینی چاہیے کسی خاص وجہ کے بغیر بعض اولاد کو دینا اور بعض کو نہ دینا جائز نہیں مذکورہ صورت میں چونکہ یہ دوبیٹے دینی تعلیم میں مشغول ہیں اس لیے یہ صورت ناجائز تو نہیں تاہم جب بچوں میں لڑائی جھگڑے کا اندیشہ ہو تو یہ ایسا کرنا بہتر بھی نہیں البتہ اگر آپ یہ جگہ وقف کرنا چاہیں تو وقف کرسکتی ہیں، وقف کے بعد یہ زمین آپ کی ملکیت میں نہ رہے گی اور نہ ہی اس میں میراث جاری ہوگی اور جس کام کے لیے زمین وقف کی جائے گی وہی کام کرنا جائز ہوگا دوسرے کام کرنا جائز  نہ ہوں گے۔ مدرسے کے لیے وقف کرنا جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری (4/391)میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

 رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع،ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره، كذا في الملتقط

حاشیہ ابن عابدین(6/518)میں ہے:

(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ابن الكمال وابن الشحنة ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه، وإلا فالكل ملك لله تعالى. واستحسن في الفتح قول مالك – رحمه الله – أنه حبس العين على ملك الواقف فلا يزول عنه ملكه، لكن لا يباع ولا يورث ولا يوهب مثل أم الولد والمدبر وحققه بما لا مزيد عليه.

قلت: وظاهر أن هذا مراد شمس الأئمة السرخسي حيث عرفه بأنه حبس المملوك عن التمليك من الغير، فإن الحبس يفيد أنه باق على ملكه كما كان وأنه لا يباع ولا يوهب

مسائل بہشتی زیور (2/336)میں ہے:

مسئلہ: جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کسی وجہ سے مثلاً اس کی دینداری،خدمت گزاری، دینی خدمات میں مشغولیت اور تنگدستی وغیرہ سے کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں ہے لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو، نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر دوسروں کو نقصان دینے کی غرض سے ہی کسی کو زیادہ دیا یا سارا دے دیا تو وہ ہبہ نافذ ہوجائے گا لیکن باپ گناہ گار ہوگا۔اولاد بے دین اور فاسق و فاجر ہو اور جو مال ملے وہ گناہ کے کاموں پر خرچ کرے گی تو اس کو کھانے پینے کی مقدار سے زیادہ نہ دینا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved