- فتوی نمبر: 33-235
- تاریخ: 26 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
میرا نام ****ہے۔ میں لاہور کا رہائشی ہوں اور مجھے اپنی اولاد کو جائیداد ہبہ کرنے کی بابت فتوی درکار ہے، میری چار بیٹیاں ہیں الحمدللہ شادی شدہ ہیں اور میرے چار بھائی ،تین بہنیں ہیں جن میں سے دو بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں، فوت شدگان کی اولادیں موجود ہیں دو بھائی جو انتقال کر گئے ہیں ان میں سے ایک بھائی کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں جب کہ دوسرے بھائی کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں زندہ ہیں اور ایک بہن جو وفا ت پا چکی ہیں ان کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں حیات ہیں ۔ میرے والدین میں سے کوئی بھی حیات نہیں ہے ۔ میرے جن بہن، بھائیوں کا انتقال ہوا ہے وہ والدین کے انتقال کے وقت حیات تھے ۔ جائیداد کی تفصیل :
1۔ ایک رہائشی مکان، ایک مارکیٹ میں دکان اور ایک پلاٹ ہے اس کے علاوہ نقدی میری جاب کی صورت میں موجود ہے ۔
2۔مجھے وراثت میں لگ بھگ دو کنال زرعی زمین اور ایک مکان ملا ہے جو بھائی کے زیر استعمال ہے ہم خوشی غمی یاعیدین پر وہاں جاتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ:
1۔ میں اور میری زوجہ آئندہ وقت میں کسی بھی فساد سے بچنے کے لیے جائیداد نمبر (۱) کو اپنی بیٹیوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتے ہیں کیا ہمارا یہ عمل شریعت کی رو سے درست ہے؟ اس پر ہمارا مواخذہ تو نہیں ہوگا ؟
2۔اور جائیداد نمبر (۲) شرعی طریقے سے ہمارے بعد تقسیم ہو اس کی تقسیم کے حوالے سے بھی وضاحت فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں اگر دیگر ورثاء کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو تو آپ کا اپنی بیٹیوں میں جائیداد نمبر ایک تقسیم کرنا جائز ہے۔
توجیہ: اپنی زندگی میں کسی کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ ہبہ ہوتا ہے اور انسان کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے یہ حق ہے کہ اپنے مال میں جو چاہے تصرف کرے لہذا مذکورہ صورت میں اپنی جائیداد بیٹیوں میں تقسیم کرنا ہبہ ہے لیکن اگر کچھ وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے اپنا مال کسی کو دے تو نیت صحیح نہ ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ اور اگر وارثوں کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو بلکہ محض اس خیال سے کہ میرے انتقال کے بعد بیٹیاں پریشان نہ ہوں اپنی زندگی میں ہبہ کر کے قبضہ دے کر مالک بنا دے تو جائز ہے۔
2۔اگر آپ کی وفات کے وقت یہی ورثاء ہوئے جو فی الحال ہیں تو جائیداد نمبر (2) ان میں یوں تقسیم ہوگی کہ اس جائیداد کی مالیت کے کل 144 حصے کیے جائیں گےجن میں سے 18 حصے ( 12.5 فیصد) آپ کی زوجہ کو، 24 حصے (16.67 فیصد فی کس)چار بیٹیوں میں سے ہر ایک کو، 10 حصے (6.94فیصد فی کس) آپ کے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو اور پانچ حصے (3.47 فیصد فی کس) آپ کی دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے:
6×24=144
بیوی | 4 بیٹیاں | 2 بھائی | 2بہنیں |
8/1 | 3/2 | عصبہ | |
3 | 16 | 5 | |
3×6 | 16×6 | 5×6 | |
18 | 96 | 30 | |
18 | 24+24+24+24 | 10+10 | 5+5 |
شامی(8/583) میں ہے:
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار.
شامی (8/488) میں ہے:
الهبة: (هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض.
المختار(8/573)میں ہے:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
مشکوۃ (2/925) میں ہے:
عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة ثم يحضرهما الموت فيضاران في الوصية فتجب لهما النار» ثم قرأ أبو هريرة (من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار) إلى قوله (وذلك الفوز العظيم)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2039) میں ہے :
(فيضاران في الوصية) من المضارة أي: يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث، أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئا، فهذا مكروه وفرار عن حكم الله تعالى، ذكره ابن الملك، وفيه: أنه لا يحصل بهما ضرر لأحد، اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر، وقال بعضهم: كان يوصي لغير أهل الوصية أو يوصي بعدم إمضاء ما أوصى به حقا بأن ندم من وصيته أو ينقض بعض الوصية ( «فتجب لهما النار» ) أي: فتثبت والمعنى يستحقان العقوبة، ولكنهما تحت المشيئة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved