• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا اور  بعض ورثاء کا دوسرے سے ان کا حصہ خریدنا

استفتاء

ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی  ہی میں اپنے مکان کی تقسیم کر دی تھی، ہر بیٹے اور ہر بیٹی کا حصہ متعین کر دیا تھا۔ جس کی تفصیل ساتھ لف ہے۔ ہم 4بھائی اور 2بہنیں  ہیں۔ تقسیم کے بعد 4بھائیوں میں سے ایک بھائی کا والد صاحب کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا۔ فوت شدہ بھائی کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ اب ہمارے والدین کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ پہلے والد فوت ہوئے پھر والدہ فوت  ہوئی۔ والد اور والدہ کے انتقال کے وقت ان کے بھی والدین موجود نہیں تھے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔ والد صاحب نے مکان کی تقسیم اس طرح کی تھی کہ چار بیٹوں میں ہر ایک بیٹے کے لیے ایک ایک مرلہ حصہ رکھا اور دو بیٹیوں کے لیے ایک  مرلہ (آدھا آدھا) رکھا۔ اور بہنوں کے حصہ کے بارے میں یہ طے کیا کہ جو بھائی قیمت دے کر بہنوں کا حصہ خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے، خریدنے کے بعد وہ حصہ خریدنے والے بھائیوں کا شمار ہوگا۔ لہٰذا بہنوں  کے حصہ (ایک مرلہ کی قیمت  اس وقت ریٹ کے مطابق)  5لاکھ رکھی گئی۔ والد صاحب کی   زندگی میں دو بھائیوں نے 125000-125000روپے دے کر مکان میں سے بہنوں کے ایک مرلہ میں سے آدھا حصہ خرید لیا تھا۔ جبکہ باقی آدھا حصہ دوسرے بھائی نہ خرید سکے۔ وہ بہنوں ہی کی ملکیت میں رہا۔

  1. اب پوچھنا یہ ہے کہ والد کی وفات کے بعد اس مکان میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
  2. تقسیم کے بعد والد صاحب کی زندگی میں فوت ہونے والے بھائی کے حصہ میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ فوت شدہ بھائی کی بیوی اور اولاد کوئی نہیں۔ بھائی کی وفات کے وقت والدین، تین بھائی اور دو بہنیں حیات تھیں۔ والدین کا بعد میں انتقال ہوگیا ہے جیسا اوپر ذکر ہوا۔
  3. مکان کی تقسیم کیسے ہوگی؟ جن دو بھائیوں نے بہنوں کو قیمت دے کر ان سے آدھا حصہ خریدا تھا ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اور جس بھائی نے ابھی تک بہنوں کا حصہ نہیں خریدا اس کو کتنا حصہ ملے گا، مکان کی قیمت  ایک کروڑ لگائی ہے۔  تقسیم بھی ایک کروڑ کے حساب مطلوب ہے۔
  4. جس بھائی نے بہنوں کا حصہ نہیں خریدا اب اگر وہ بہنوں کا حصہ خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے یا نہیں؟

سائل: محمد حسین ، غلام نبی، غلام رسول

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  • مذکورہ صورت میں اگرچہ ہبہ صرف زبانی ہی ہے لیکن چونکہ یہ مکان اتنا بڑا نہیں کہ تقسیم کے بعد بھی قابل انتفاع رہے لہٰذا بغیر قبضے کے بھی یہ ہبہ درست ہوگیا اور چونکہ اس مکان میں بہنوں نے اپنا آدھا  مرلہ اپنے دو بھائیوں کو بیچ دیا اس لیے اب ان کا اس مکان میں آدھا مرلہ بنتا ہے۔

البتہ فوت ہونے والے بھائی کے حصے میں ان کا حصہ بنتا ہے، لہٰذا وہ اس آدھے مرلے کے علاوہ ہو گا، جیسا کہ نمبر2 کے ذیل میں ہے۔

  • بنتا ہے جو ان کے آدھے مرلے کے علاوہ ہوگا۔
  • اگر مکان کی قیمت ایک کروڑ ہو تو اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ جس بھائی نے بہنوں کا حصہ نہیں خریدا اس کو ایک کروڑ میں سے 25لاکھ ملیں گے اور جن دو بھائیوں نے بہنوں سے حصہ خریدا ہے ان میں سے ہر ایک بھائی کو 30-30لاکھ ملیں گے۔ جبکہ بہنوں کا مشترکہ حصہ 15لاکھ اور ہر بہن کا الگ الگ حصہ ساڑھے سات لاکھ بنے گا۔
  • اگر بہنیں اسے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی ہوں تو خرید سکتا ہے۔

نوٹ: ہمارا جواب اس صورت میں ہے کہ جب بہن بھائی مذکورہ سوال نامہ سے متفق ہوں۔ اگر کسی بھائی یا بہن کو اختلاف ہو تو ہمارا جواب کالعدم ہوگا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

ایک کروڑ                                                                                                                                  

فوت شدہ بھائی بھائی بھائی بھائی بہن بہن
20لاکھ 20لاکھ 20لاکھ 20لاکھ 20لاکھ

فوت شدہ بھائی کا حصہ 20لاکھ                                                                                                       

بھائی بھائی بھائی بہن بہن
5لاکھ 5لاکھ 5لاکھ 5لاکھ

بہنوں کے 20لاکھ میں  سے دو بھائیوں کا حصہ                                                                                    

بھائی بھائی 2بہن
1 1 2
5لاکھ 5لاکھ 10لاکھ
جس بھائی نے بہنوں کا حصہ نہیں خریدا جن دو بھائیوں نے حصہ خریدا بہنوں کا حصہ
25لاکھ 30-30لاکھ مجموعی 15لاکھ
انفرادی ساڑھے سات لاکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved