• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں بعض اولاد کو دینا اوربعض کو محروم کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں رہنمائی درکار ہے ۔

میرے والد صاحب کےپانچ بھائی اور 4 بہنیں ہیں ۔ ایک بہن کا انتقال ہوگیا ہے ۔ میرے دادا  ابو نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے سب بیٹوں کو حصہ دیا ۔ لیکن بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا ۔ میرے والد صاحب کے حصے میں جو جگہ آئی وہ بھی اُن کے نام نہیں بلکہ میری والدہ کے نام دادا  ابو نے کروائی تھی ۔ لیکن کچھ قانونی مسائل حل کرنے کی وجہ سے وہ جگہ میری والدہ نے میرے والد صاحب کے نام کروا دی جو کہ اب اُن کے نام ہی ہے وہ جگہ جو میرے والد صاحب کے حصے میں آئی وہ معمولی سی تھی لیکن میرے والد صاحب نے محنت کر کے اُسے اچھا خوبصورت گھر بنا یا ہے اور آج اُس کی قیمت آج سے 15 سال پہلے جو تھی اُس سے بہت زیادہ ہے ۔

اب کیا اِس جائیداد میں جو کہ اب میرے والد صاحب کے نام ہے اُس میں سے میرے والد صاحب کی بہنوں کا حصہ بنتا ہے ؟ یا پھر اُس جگہ پر حصہ بنتا ہے جو آج سے 15 سال پہلے تھی ۔

قرآن وسنت  کی روشنی میں اِس کا حل کیا ہے ۔ کیا میرے والد صاحب پر فرض ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو حصہ دے کہ نہیں ؟

تنقیح :          کیا  دادا نے آپ کی والدہ کو اس جگہ کا قبضہ اپنی زندگی میں ہی دے دیا تھا ؟

جواب:        جی ہاں اپنی زندگی میں ہی وہ مکان والدہ کے قبضہ میں دے دیا تھا اگر چہ اس وقت عمارت خستہ تھی پھر جب والد کے نام ہوا تو انہوں نے دوبارہ تعمیر کروائی ۔ جزاکم اللہ خیراً

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے والد کے ذمے نہیں کہ وہ اپنے حصے میں آنے والی جائیداد میں سے اپنی بہنوں کو کچھ دیں، البتہ چونکہ آپ کے دادا  نے اپنی بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کر کے ایک گناہ کا کام کیا ہے اس لئے اس کےازالے  کیلئے آپ کے والد صاحب اپنے حصے میں آنے والی جائیداد میں بہنوں کا ایک اوردو کی نسبت سے جتنا حصہ بنتا ہو وہ دیدیں تو یہ اچھی بات ہے ۔بہنوں کو حصہ  دینے کی صورت میں خالی پلاٹ کی (تعمیرکے بغیر) موجودہ قیمت کے حساب سے دیدیں ۔

رجل له ابن وبنت أراد أن یهب لهما شیئًا فالأفضل أن یجعل للذکر مثل حظ الانثیین عند محمدؒ وعند أبي یوسفؒ بینهما سواء هوا المختار لورود الآثار .

ولو وھب جمیع ماله لابنه جاز فی القضاء وهو آثم نص عليه محمدؒ هکذا فی العیون .(خلاصة فتاویٰ ۴/۴۰۰ جنس آخر فی الھبة من الصغیر )

رجل وهب فی صحته کل المال للولد جاز في القضاء ویکون آثما فیما صنع ، کذا فی فتاوی قاضي خان : (الباب السادس في هبة الصغیر ، کتاب الهبة : فتاویٰ هندیة ۳۵۵/۷ )

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved