• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں بطور میراث کے دیئے ہوئے حصے کی شرعی حیثیت

استفتاء

ہمارے والد صاحب فوت ہوئے ہیں، ان کے پسماندگان میں 6 بیٹے، 3 بیٹیاں اور ایک بیوہ ہے۔ جائیداد کی کل مالیت 26800000 (دو کروڑ اڑسٹھ لاکھ) روپے بنتی ہے۔ 3 بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کو والد صاحب نے اپنی زندگی میں وراثتی حصہ کے طور پرایک مکان دے دیا تھا۔ کیااب اس مالیت میں ان کا حصہ بنتا ہے؟ اب اس بیٹی کا کوئی مطالبہ نہیں ہے کہ مجھے وراثت میں سے حصہ دیا جائے۔ کیا شرعی طور پر اس بیٹی کا والد صاحب کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو کتنا؟جبکہ دادا، دادی کا انتقال پہلے ہو چکا ہے۔

نوٹ: جس بیٹی کو والد نے اپنی زندگی میں میراث کے طور پرمکان دیاتھا ان سمیت 3 بیٹیاں ہیں۔ نیز والد نے بیٹی کو جو مکان بطور میراث کے دیا تھا اس وقت اس کی قیمت 16 لاکھ تھی، اوراب اس کی قیمت 22 لاکھ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس بیٹی کو والدنے اپنی زندگی میں اس کے وراثتی حصے کے  طور پر ایک مکان دیا تھا اس مکان کے دینے سے اس بیٹی کا وراثتی حصہ ادا نہیں ہوا، کیونکہ وراثتی حصہ والد کی وفات کے بعد بنتا تھا لیکن والد صاحب کی غرض خالص ہدیہ یعنی گفٹ کی بھی نہ تھی بلکہ وراثتی حصہ کے بدل کے طور پر دینے کی تھی، اگرچہ ان کو اس کا علم نہیں تھا کہ اس طرح زندگی میں دینے سے وراثتی حصہ ادا نہیں ہوتا۔نیز اگر اس کو ہدیہ کہیں تو بعض اولاد کو ہدیہ میں بلاوجہ ترجیح دینا لازم آتا ہے جو والد کے لیے کسی درجے میں گناہ اور پکڑ کا باعث ہے ،جسکی وجہ سے اسے خالص ہدیہ کہنابھی دشوار ہے، لہذا اس مکان کی مالیت کو اس بیٹی کے حق میں قرض سمجھا جائے گا، اب یہ بیٹی یا تو یہ مکان اپنے پاس رکھے اور باقی جائیداد میں اپنا حصہ دیگر ورثاء کو ان کے شرعی حصوں کے بقدر ہدیہ کردے اور یایہ مکان یا اس کی مالیت واپس کر دے اور کل میراث میں شریک ہوجائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved