• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

زندگی میں دی ہوئی جائیداد میں سے والد کا بہنوں کو حصہ دینے کا مطالبہ

استفتاء

میرے والد محترم نے اپنی زندگی میں ایک مکان بنوایا جس کا رقبہ تین مرلے ہے اور اس کی تعمیر پر والد محترم نے اپنی کمائی سے رقم خرچ کی اور ہم سب بھائی بہن اس گھر میں رہائش پذیر تھے۔ ہم پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں اورہماری والدہ وفات پاچکی ہیں۔ اس کے بعد والد محترم نے ایک اور پلاٹ خریدا جس کا رقبہ سات مرلے ہے۔ اس پلاٹ پر میرے بڑے بھائی نے اپنی کمائی سے مکان تعمیر کر لیا۔ پلاٹ کی ملکیت والد صاحب کی تھی اور بلڈنگ کی ملکیت بھائی صاحب کی تھی۔ اسی دوران والد محترم نے ایک اور پلاٹ خریدا جس کا رقبہ سات مرلے ہے۔ اس پر میرے دوسرے بڑے بھائی نے مکان تعمیر کرلیا۔ اب اس پلاٹ کی ملکیت بھی میرے والد محترم کی تھی اور بلڈنگ کی ملکیت دوسرے بڑے بھائی صاحب کی تھی والد محترم نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی جائیداد اپنے بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ لہذا

1۔ تین مرلے کا مکان جس کے پلاٹ کی ملکیت اور تعمیر کی ملکیت دونوں چیزیں والد صاحب کی تھی اپنے دو بیٹوں کو دے دی۔

2۔ اس کے بعد سات مرلے کا ایک پلاٹ جس پلاٹ کی ملکیت والد صاحب کی اور بلڈنگ کی ملکیت ایک بھائی کی تھی وہ انہوں نے اپنے دو بیٹوں کو دے دیا۔

3۔ بالکل اس طرح تیسرا پلاٹ جس کی ملکیت والد صاحب کی تھی اور بلڈنگ کی ملکیت بھائی کی تھی یہ صرف انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو دیدیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنے تین پلاٹوں کی تقسیم یوں کی تین مرلے کا مکان دو بیٹوں کو دیا، ایک سات مرلے کا پلاٹ اپنے دو بیٹوں کو دیا اور تیسرا سات مرلے کا پلاٹ اپنے صرف ایک بیٹے کو دیا۔ اب اس وقت ہمارے والد محترم کی ملکیت میں کچھ نہیں ہے لیکن اب ہماری بہنیں ہم سے اپنی وراثت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ والد صاحب یوں کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی جو کہ ہم تین مرلے کے مکان میں مشترک ہیں ہم ہی اپنی پانچوں بہنوں کو اپنی مکان میں سے حصہ دیں۔ میں اور میرا بھائی یہ کہتے ہیں کہ بہنوں کا حصہ ان تمام پلاٹ میں سے نکالیں جن کی ملکیت والد صاحب کی تھی۔ اس مسئلے کا حل قران و حدیث سے ہم پر واضح کریں کہ آیا صرف اپنے مکان میں حصہ نکالنا ہے یا سب بھائیوں کو اپنے پلاٹوں میں سے حصہ دینا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے والد کو چاہیے تھا کہ شروع سے تقسیم ایسے کرتے کہ کہ بیٹیوں کو بھی مناسب حصہ دیتے اور انہیں محروم نہ کرتے۔ جب انہوں نے ایسا نہیں کیا اور صرف بیٹوں کو ہی حصہ دیا ہے۔ اور اگر شرعی طریقےسے اس ہبے پر بیٹوں کا قبضہ بھی ہوچکا ہے تو ایسے میں قانونی اعتبار سے تو والد کسی بیٹے کو حصہ دینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ البتہ سب بیٹوں کو اخلاقی طور پر یہ چاہیے کہ وہ اپنی بہنوں کو کچھ دے دلاکر راضی کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved