• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں دکان ومکان کی تقسیم کاحکم

استفتاء

بیان حلفی برائے  گھر

1۔میرے یعنی محمد عمار قریشی کے پاس تین پلاٹ اور ایک مکان تھا میں نے اپنے دو بیٹے اسد قریشی اور محمد عثمان قریشی کو الگ الگ ایک پلاٹ دے دیا ان دونوں بیٹوں کو پلاٹ تقریبا 2005 سے پہلے  ہبہ کر دیے تھے ۔جن سے میری کوئی شکایت نہ تھی  اور ان سے میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ان کو ہبہ کرنے کے کچھ عرصہ بعد میرے تیسرے بیٹے عبداللہ قریشی مرحوم نے مطالبہ کیا کہ یہ مکان میرے نام کیا جائے جس مطالبے  میں کچھ شدت بھی تھی جس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے گھر والوں کا اصرار تھا ان کے اس مطالبے پر تیسرا جو مکان ہے یعنی 9 نمبر گلی نمبر3 شریف پارک روڈ کو عبداللہ قریشی مرحوم کو ہبہ  کیا گیا تھا ۔چار گواہان کی موجودگی میں ان شرائط کے ساتھ جو کاغذات کے ساتھ لف ہیں شرائط کے اوپر میرے بڑے بھائی مرحوم محمد انور قریشی اور چھوٹے بھائی محمد زبیر قریشی ،محمد عمر قریشی اور  مرحوم عبداللہ قریشی کے دستخط ہیں اور دو گواہ سہیل امتیاز اور انوار بخش مارکیٹ سے ہیں برخوردار عبداللہ قریشی مرحوم نے میرے اور میرے بہن بھائیوں سے دستخط کروا کر اپنے نام بیع  کی تین رجسٹریاں تیار کروا دیں ۔ اب میرا کہنا یہ ہے کہ عبداللہ قریشی مرحوم نے شرائط کی خلاف ورزی کی ہے لہذا یہ بیع نامہ منسوخ ہو گیا ۔شرائط کی خلاف ورزی کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔

1۔مذکورہ مکان کے ساتھ تقریبا 23 مرلے کا پلاٹ تھا جس کو ہم بطور صحن کے استعمال کر رہے تھے انہوں نے اس پلاٹ میں سے 6 مرلہ 99 فٹ جگہ کی جعلی رجسٹر ی اپنے نام کروا لی۔ یعنی اس پلاٹ کے ایک حصے کو بھی اس مکان کے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جس کا علم ہمیں ان کے انتقال کے بعد ہوا ہم نے عدالت میں کیس کرکے اس جعلی رجسٹری کو ختم کروایا اور بیچ کر بیٹیوں کو حصہ دے دیا ۔

2۔بظاہر اسی وجہ سے میرے بیٹے نے اپنی زندگی میں مجھے اس طرف دیوار بھی نہیں کرنے دی میں نے جب مکان اور پلاٹ کے درمیان دیوار کرنی چاہی تاکہ یہ پلاٹ مکان سے علیحدہ ہو جائے اور کوئی اشتباہ کی صورت نہ رہے بیٹا رکاوٹ بن جاتا۔

سوال یہ ہے کہ یہ مکان میراث بنے گا یا میری ملکیت تصور ہو گا ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب مکان اور دکان کی بطور ہدیہ کے آپ نے اپنے بیٹے کے نام رجسٹری کروادی تو یہ مکان اور دکان آپ کے بیٹے کی ہو گئی ۔لہذا یہ مکان اور دکان آپ کی ملکیت شمار نہ ہو گی بلکہ آپ کے بیٹے عبد اللہ کی ملکیت شمار ہوگی اور ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو گا ورثاء میں آپ بھی شامل ہیں اور آپ کااپنے شرعی حصے کے بقدر اس مکان اور دکان میں حصہ جو کہ مذکورہ صورت میں 1/6یعنی چھٹا حصہ ہے ۔اس مکان اور دکان پر اگرچہ آپ نے اپنے بیٹے کو اپنا سازوسامان نکال کرقبضہ نہیں دیا لیکن موجودہ دور میں جائیداد کے معاملے میں رجسٹری کرادینا قبضہ کے قائم مقام ہے اس لیے ہدیہ مکمل ہو گیا ۔چنانچہ امداد الاحکام (49/4)میں ہے:

اس کے بعد تمام مفتیوں کو اس بات میں غور کرنا چاہیے کہ جائیداد مزروعہ پر قبضہ کی حقیقت کیا ہے ؟میرے خیال میں کسی شخص کو یہ معلوم ہو جانا کہ فلاں فلاں نمبرزمین کا میرا ہے اور اس کے نام داخل خارج کاغذات مال میں ہو جانا قبض عقار کے لیے کافی ہے ۔اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ورنہ اراضی مقبوضہ کا تحقق بہت کم ہو گا۔

وفیه من الحرج مالایخفی الخ

اور امداد الفتاوی (474/3)میں ہے:

’’قبضہ محض حساب وکتاب دینے سے نہیں ہوتا تاوقتیکہ تسلط تام نہ ہو جس کو عرف قانون میں دخل یابی کہتے ہیں‘‘

دوسری جگہ(474/3)میں ہے:

’’سوال(506)         بی بی کا قبضہ بحیثیت کاغذات سرکاری میں ہو گیا اور اس کی بی بی وصول تحصیل لگان کرتی ہے ؟

الجواب:      اگر قرائن سے معلوم ہو کہ خاوند کو یہ جائیداد بی بی کو دینا ہی مقصود ہے تو یہ ہبہ ہو گیا‘‘

یہ تفصیل اس وقت ہے جب بیعنامہ سے اصل مقصود ہدیہ کرنا ہو اور اگر اصل مقصود بیع کرنا ہی تھا تو بیع کے صحیح اور مکمل ہونے کے لیے قبضے کی بھی ضرورت نہیں۔غرض بہر صورت یہ مکان اور دکان بیٹے کی ملکیت شمار ہو گا۔

نوٹ:         شرائط نامہ میں تین شرطیں مذکورہیں:

۱۔  فریق اول مکان درج بالا کو اپنے والد حقیقی کی زندگی میں فروخت نہ کریگا۔

۲۔ اور نہ ہی کسی دیگر فریق کو کسی بھی طریقہ سے ملکیت تبدیل کرے گا۔

۳۔ اور نہ ہی اپنے والد حقیقی کو مکان درج بالا سے بے دخل کریگا۔

سائل نے مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی سے متعلق جو دو صورتیں ذکر کی ہیں ان میں مذکورہ بالاشرائط میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی نہیں ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved