• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں فوت ہونے بیٹے کی اولاد کا حصہ

استفتاء

میر ا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے وراثت میں ایک مکان ہے دو مرلہ کا دو منزلہ، میرے بیٹے کا پچھلے سال انتقال ہو گیا تھا اس کے دو بچے (لڑکے) ہیں جن کی عمر 11 سال اور 10 سال ہے، اس کی ایک بیوی ہے، ان بچوں کا میری وراثت میں کیا حصہ بنے گا اور اگر میں اپنی زندگی میں دینا چاہوں تو کتنا حصہ ہو گا؟ ان بچوں کا حصہ ہے بھی یا نہیں کیونکہ میرا بیٹا میری زندگی میں ہی انتقال کر گیا؟ میری بیٹی زندہ ہے، بیٹی کا کتنا حصہ بنے گا؟

آپ مجھے شریعت کے مطابق اس کا فتویٰ دے دیں کیا میں اپنی زندگی میں یہ مکان بیٹی کے نام کر سکتا ہوں یا مجھے فروخت کرنا پڑے گا؟

نوٹ: سائل کی بیوی بھی موجود نہیں ہے اور بھائی بھی کوئی نہیں ہے ایک بھائی تھے مگر وہ بھی فوت ہو گئے، اور ان کی اولاد بھی نہیں ہے۔

نوٹ: مجھے تحریری جواب چاہیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اپنی زندگی میں آدمی جو کچھ اپنی اولاد میں تقسیم کرتا ہے، اس کی حیثیت میراث کی نہیں ہوتی، بلکہ ہدیہ (گفٹ) کی ہوتی ہے۔

اس لیے مذکورہ صورت میں آپ مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں:

1۔ آدھا گھر یا اس کی قیمت اپنی بیٹی کو دیدیں اور آدھا گھر یا اس کی قیمت اپنے دونوں پوتوں کو دیدیں۔

هذا التقسيم على سهام الميراث المتوقع في المستقبل.

2۔  کل مکان کے تین حصے کر کے ایک حصہ یا اس کی قیمت اپنی بیٹی کو اور ایک ایک حصہ یا اس کی قیمت اپنے ہر پوتے کو دیدیں۔

هذا التقسيم منبي على التسوية بين الأولاد في الهبة.

3۔ کل  مکان کے 24 حصے کر کے 8 حصے یا اس کی قیمت اپنی بیٹی کو، اور 2 حصے یا ان کی قیمت اپنی بہو کو، اور 7-7 حصے یا ان کی قیمت اپنے ہر پوتے کو دیدیں۔

هذا التقسيم منبي على فرض وجود الابن.

کفایت المفتی میں ہے:

’’سوال: ہندہ مورث اعلیٰ جو حی القائم ہے، اپنی کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ اپنے ورثاء میں حسب سہام شرعی تقسیم کرنا چاہتی ہے، اس کے اس وقت پانچ وارث ہیں، تین لڑکیاں، ایک پوتا، بڑے لڑکے کا بیٹا اور ایک پوتی ، چھوٹے لڑکے کی بیٹی، براہ کرم ارقام فرمائیں کہ کس وارث کو کس قدر حصہ شرعاً ملنا چاہیے؟ مورث اعلیٰ ہندہ ورثاء محمود بن عمرو زبیدہ  بنت بکر، سعیدہ، شریفہ، جمیلہ۔

جواب:       دختر      دختر      دختر      پسر پسر   دختر پسر

2        2        2        2        1

یعنی 9 سہام کر کے دو دو سہام ہر لڑکی کو اور دو سہام پوتے کو، اور ایک سہام پوتی کو ملے گا۔ یہ سہام اگرچہ میراث کے ہیں اور میراث کا اعتبار ہندہ کی وفات کے بعد ہو گا کہ کون وارث اس وقت موجود ہے اور کون نہیں؟ تاہم اگر وہ اپنی زندگی میں تقسیم کر دے تو اس حساب سے کر سکتی ہے اور اسے یہ  حق بھی حاصل ہے کہ چاہے تو پانچوں وارثوں میں برابر تقسیم کر دے۔‘‘ (کفایت اللہ مفتی: 8/ 305- 306)۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved