• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زندگی میں فوت ہونے والے کی اولاد کا میراث میں حصہ

استفتاء

مودبانہ گذارش ہے کہ ہمیں آپ محترم علماء سے ایک مسئلہ کا حل بمطابق شریعت اور قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔

مسئلہ: ہم اپنے والدین کی سات اولاد ہیں۔ جن میں چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ والد صاحب 13 رمضان المبارک بمطابق 19 جون 2016ء کو قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ ہماری ہر دلعزیز بہن مسرت بشیر والد صاحب کی وفات سے تقریباً سات سال پہلے بوجہ بیماری اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی انہیں یا ان کی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے حصہ دینے کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ گذارش ہے کہ ان حالات میں ہماری بڑی بہن جو کہ والد صاحب سے پہلے انتقال کر گئی تھیں کیا جملہ حقوق میں ان کا والد صاحب کی جائیداد میں سے کوئی حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟

1۔ ہماری والدہ والد صاحب سے قبل فوت ہو چکی ہیں۔

2۔ ہماری ہمشیرہ کے بیٹوں نے جو کہ بیرون ملک ہوتے ہیں ہمارے خلاف اپنا حصہ لینے کے لیے کیس بھی کر رکھا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو وارث زندگی میں فوت ہو جائے وہ میراث میں حقدار نہیں ہوتا  اور نہ ہی اس کی اولاد حقدار ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ کی بہن کی اولاد کا آپ کے والد کی میراث میں شرعی حق نہیں بنتا۔ تاہم اگر آپ صلہ رحمی کرتے ہوئے انہیں کچھ دے دلا کر راضی کر لیں تو اچھا ہے۔

فتاویٰ شامی  (10/576) میں ہے:

ويحجب أقربهم الأبعد كترتيب العصبات فهم أربعة أصناف: جزء الميت، ثم أصله، ثم جزء أبويه، ثم جديه أو جدتيه وحينئذ يقدم جزء الميت……………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved