- فتوی نمبر: 3-126
- تاریخ: 23 فروری 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
امید ہے آپ بمعہ اہل و عیال عافیت سے ہونگے۔ کافی کوشش کے باوجود حاضر خدمت نہ ہو سکا۔ ایک عدد وراثت کے بارے میں مسئلہ از روئے شریعت دریافت کرنا تھا۔ آج طلباء کے ہاتھ لکھ کر بھیج رہا ہوں برائے نوازش آپ جواب مدلل تحریر فرما دیں ساتھ مدرسہ کی مہر بھی ثبت کر دیں تاکہ سمجھانے والے کی تسلی ہو سکے۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے والدصاحب کی اولاد میں سے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ والد صاحب کا انتقال 1961 جنوری میں ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
والد صاحب کی زندگی میں ہی ایک بہن دو بچے چھوڑ کر جون 1960 میں وفات پاگئیں۔ باقی والدہ صاحبہ اور تین بھائی اور دو بہنیں والد صاحب کے وفات کے وقت موجود تھے جائیداد میں میں 4 ایکڑ زرعی رقبہ موجود تھا۔
وراثت کو تین بھائیوں اور دو بہنوں اور والدہ صاحبہ کے نام تقسیم کر دیا گیا۔ جو بہن فوت ہوئی تھی اس کا جوان لڑکا اپنی والدہ کے حصے کی وراثت مانگتا رہتا ہے ۔ کیا والد صاحب کی زندگی میں وفات پانے والی بہن کا حصہ بنتا ہے؟ جو بھانجے کو دیا جائے یا ویسے ہی کچھ نہ کچھ دے دیا جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں فوت شدہ بہن کی اولاد کا وراثت کے مال میں حصہ نہیں بنتا لیکن اگر کوئی وارث اپنے حصہ میں سے ان کو کچھ ہدیہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved