- فتوی نمبر: 33-39
- تاریخ: 10 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
ایک مکان کی دو رجسٹریاں ہیں، ورثاء میں چار بیٹے (زید، خالد ، عمرو، بکر) اور 5 بیٹیاں (فاطمہ، عائشہ، زینب، مریم ، کلثوم) ہیں۔ مکان کا فرنٹ والدہ کے نام ہے اور مکان کی بیک تین بیٹوں ( خالد، بکر اور عمرو) کے نام ہے۔ زید اپنی والدہ سے پہلے فوت ہوئے، والدہ بعد میں فوت ہوئی۔ کل جائیداد میں زید کا حصہ ہے یا نہیں؟زید کی اولاد اس گھر میں سے حصہ مانگ رہی ہے۔ دادا کی کُل جائیداد یہی گھر ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: (1)جو جگہ والدہ اور بھائیوں کے نام ہے وہ انہوں نے خود خریدی تھی یا کسی نے ان کے نام لگوائی تھی؟ (2) اگر کسی اور نے نام لگوائی تھی تو وہ کون تھاور اس نے زبانی بھی یہ کہا تھا کہ میں نے یہ زمین آپ لوگوں کو دی ہے آپ اس کے مالک ہو؟
جواب وضاحت: والدہ اور بچوں کے نام جو جگہ ہے وہ انہوں نے خود نہیں خریدی تھی وہ جگہ سن 1960 یا 1965 میں بچوں کے والد نے خریدی تھی۔(2) بچوں کے والد نے یہ زمین نام کروائی تھی۔ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اس زمین کے تم مالک ہو۔
نوٹ: زید نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی جس کی وجہ سے سندھ میں کوارٹر اور دکان بیچ کر کیس پر پیسے خرچ کیے اس لیے لاہور والی زمین والد نے صرف ان تین بیٹوں اور بیوی کے نام لگوائی تھی۔میری ایک پھوپھی بھی اس بات کی گواہ ہیں۔
** ولد زید کا بیان:
میرے والد نے سندھ میں دوکان اور کوارٹر بیچا تھا یہ میں نے بھی پھوپھی سے سُنا ہے لیکن اس وقت گھر کا خرچہ مشترکہ تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس گھر میں زید کا حصہ نہیں ہے۔
توجیہ: والد کی جائیداد میں تو اس لیے حصہ نہیں بنتا کیونکہ والد نے مذکورہ گھر صرف تین بیٹوں اور بیوی کو ہبہ کردیا تھا اور والدہ کی جائیداد میں اس لیے حصہ نہیں بنتا کیونکہ زید والدہ سے پہلے فوت ہوگیا تھا جبکہ شرعاً وہ اولاد وارث بنتی ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved