• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائیداد بیٹے کو دے کربیٹیوں کو محروم کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارے والد محترم نے آج سے تین سال قبل ہمارے بھائی کو جو کہ اکلوتا ہے اڑھائی کروڑ مالیت کا پلازہ بنا کے دیا ہے۔ ہم چار بہنیں  ہیں  کیا ہمارا حق نہیں  ہے کہ اگر زندگی میں  بیٹے کو نوازا ہے تو ہمیں  کیوں  نہیں ؟ اس پر والد محترم نے فرمایا کہ اس نے دس سال میرے ساتھ کام کیا ہے اس لیے اسکو دیا ہے۔مفتی صاحب ہماری سب سے بڑی بہن نے جب سے ہوش سنبھالا ہے سارے گھر کے سودے وہ لاتی تھی۔ اس بھائی کو بھی تیار کرکے سکول چھوڑ آتی تھی۔ آج سے 2 سال قبل ہماری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ آٹھ سال بیمار رہیں  ان کو ڈاکٹر کے پاس  بھائی یا والد نہیں  بلکہ بہن ہی لے کرجاتی رہی۔ اگر دس سال کاروبار کرنے کا صلہ اڑھائی کروڑ ہے تو بیس سال گھر کی خدمت کا صلہ کیوں  نہیں ؟ کیا مسجدیں  تعمیر کروانا اس کا کفارہ ہوسکتا ہے؟ اللہ پاک کو بیٹیوں  کو حق دینا محبوب ہے یا اپنے گھر تعمیر کروانا؟

یہ  بات قابلِ غور ہے کہ ہماری بڑی بہن مطلقہ ہے جو صرف آٹھ دن ہی سسرال میں  رہ سکی تھی ۔ ان کا نکاح مفتی صاحب نے جامعہ محمدیہ میں  پڑھایا تھا۔ کیا اس مطلقہ بیٹی پر خرچ کرنا افضل صدقہ نہیں  ہے تاکہ وہ بعد میں  کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتی پھرے؟

اکثر والد اپنی بیٹیوں  کو حق نہیں  دیتے تو بیٹیاں  اکثر انکو معاف کردیتی ہیں  کیا بیٹیوں  کے معاف کرنے سے ان کی جان چھوٹ جائے گی؟  اور وہ اس عمل سے بر یٔ الذمہ ہوجائیں  گے؟ کیا ان کے رزق میں  بے برکتی نہیں  ہوگی؟ جس گھر میں  والد محترم رہ رہے ہیں  وہ نصف امی جان کے نام ہے۔ انکا انتقال دو سال قبل ہوگیا تھا۔ ان کی وراثت کے بارے میں کیا حکم ہے۔اور والد کے علم میں  ہے کہ بیٹا بعد میں  میراث کے بارے میں  غفلت سے کام لے گا تو اس صورت میں  باپ کو کیا کرنا چاہئے؟

تنقیح اول

۱۔ والد کے پاس اس پلازے اور مکان کے علاوہ اور کیا کچھ ہے؟

۲۔ کیا اس پلازے کے علاوہ اور کچھ بھی انہوں  نے بیٹے کو دیا ہے یا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟

۳۔            بڑی بیٹی کہاں  رہتی ہے اور ان کی کفالت کو ن کرتا ہے؟

۴۔            والد کس کے ساتھ رہتے ہیں  اور ان کی دیکھ بھال کون کرناہے؟

۵۔            باقی بیٹیاں  شادی شدہ ہیں  ؟ان کے معاشی حالات کیا ہیں ؟

جواب وضاحت :

۱۔ ایک پانچ مرلے کا گھر اور ایک اٹھارہ مرلے کا گھر ۔

۲۔ ان کا بزنس اکٹھا ہے اس لیے بیٹے کو اور بھی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

۳۔            بیٹی مطلقہ ہیں  اور والد صاحب کے پاس ہی رہتی ہیں  وہی اس کی کفالت کرتے ہیں ۔

۴۔            والد صاحب بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں  اور آپس میں  ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کررہتے ہیں  ۔

۵۔            چار بیٹیاں  ہیں  اور ساری شادی شدہ ہیں  سب کے حالات بہت اچھے ہیں  صرف مطلقہ بیٹی کا مسئلہ ہے۔

تنقیح دوم

۱۔ نصف گھر امی کے نام ہے اس کا مطلب کیا ہے کیا گھر امی نے اپنی رقم سے خریدا تھا یا وراثت میں  ملاتھا ؟ یا والد نے باضابطہ گفٹ کیا تھا ؟یا باضابطہ گفٹ نہیں  کیا تھا بلکہ کسی مقصد سے صرف نام کروایا تھا؟

جواب تنقیح

والد صاحب نے اپنی زندگی میں  گفٹ کیا تھا وہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

والدہ کو گفٹ میں  ملنے والا نصف گھر ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء میں  تقسیم ہو گا آپ کے والد کو اس میں  سے چوتھا حصہ ملے گا جب کہ باقی آپ بہن بھائیوں  میں  ایک دوکی نسبت سے تقسیم ہو گا۔

باقی رہا والد کا زندگی میں  بیٹے کو بہت کچھ دینا اور بیٹیوں  (بالخصو ص مطلقہ بیٹی)کو کچھ نہ دینا یہ بظاہر امتیازی سلوک ہے جو گناہ کا کام ہے ۔زندگی میں  اولاد کو کچھ دینا ہو تو کس معقول وجہ سے کچھ کمی بیشی کی تو گنجائش ہے مگر ایک کو بہت زیادہ دینا اور دوسروں  کو کچھ نہ دینا یا بہت معمولی دینا یہ جائز نہیں  اور آخرت میں  اس پر پکڑ ہو سکتی ہے .چنانچہ بخاری شریف( حدیث نمبر:2527)میں  ہے:

 عَنْ عَامِرٍ ، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا، وَهوَ عَلَي الْمِنْبَرِ، يقُولُ : أَعْطَانِي أَبِي عَطِية، فَقَالَتْ عمْرَة بِنْتُ رَوَاحَة : لَا أَرْضَي حَتَّي تُشْهدَ رَسُولَ اللَّه صَلَّي اللَّه عَلَيه وَسَلَّمَ. فَأَتَي رَسُولَ اللَّه صَلَّي اللَّه عَلَيه وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنِّي أَعْطَيتُ ابْنِي ابنْ عَمْرَة بِنْتِ رَوَاحَة عَطِية، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهدَکَ يا رَسُولَ اللَّه. قَالَ : ” أَعْطَيتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هذَا ؟ ” قَالَ : لَا. قَالَ : ” فَاتَّقُوا اللَّه وَاعْدِلُوا بَينَ أَوْلَادِکُمْ ". قَالَ : فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِية.

ترجمہ:        حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں  (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں  ۔میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک سال دو سال ٹالا لیکن پھر مجبور ہو کر)میرے والد نے مجھے (وہ غلام )ہدیہ(کرنے کا فیصلہ )کردیا (میری والدہ کو اتنی بات تسلی نہ ہوئی اس لیے توثیق کی خاطر میری والدہ )عمر ہ بنت رواحہ نے کہا جب تک آپ اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ بنا لیں  مجھے تسلی نہ ہو گی ۔میرے والد رسول ﷺ کے پاس آئے اور کہا (میری بیوی عمرہ)بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں  اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہدیہ کردوں  تو میں  نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو (غلام )ہدیہ (کرنا طے )کردیا ہے لیکن اب اے اللہ کے رسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں  (اس پر)آپ کو گواہ بنالوں  ۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ)کیا ہے؟ انہوں  نے جواب دیا کہ نہیں ۔(اس پر)آپ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو  اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کرو۔اس پر میرے والد واپس آ گئے اور ہدیہ (کا فیصلہ)واپس لے لیا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved