• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں جائیداد کی تقسیم

استفتاء

میرے والد صاحب کی جائیداد مندرجہ ذیل ہے۔

(1) ایک گھر بارہ مرلہ شہر میں (2)17 مرلہ پلاٹ چار دیواری شہر میں (3) 6کنال شہر سے کچھ دور(4)10کنال گاؤں میں (5)10کنال گاؤں میں (6)8مرلہ پلاٹ ڈی ایچ اے اسلام آباد میں۔

والد صاحب کی دو بیویاں تھیں ایک کا انتقال ہو چکا ہے (میری والدہ کا) اور ایک حیات ہیں ان سے ایک لڑکا محمد عمران ہے اور میری والدہ مرحومہ سے میں جمشید خان ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں والد صاحب بیٹیوں کو اپنی جائیداد میں حصہ دینے پر راضی نہیں ہیں اس جائیداد میں سے والد صاحب نے مجھے 2018 میں چار کنال فرنٹ کا حصہ (جس کی قیمت نو لاکھ لگ رہی تھی میں نے منع کر کے زمین ہی لی) دیا ہے اور نمبر 4٬5 میں سے پانچ پانچ کنال دیا ہے اور 6نمبر کو فروخت کر کے ساڑھے سات لاکھ میں سے تین لاکھ 65 ہزار روپے دیئے ہیں یہ تقسیم 2019 میں ہوئی ۔

میں نے شہر والی چار کنال زمین پر خرچہ کر کے قابل استعمال بنا لیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اس میں میں نے دکانیں بھی بنائیں ہیں۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ میرے ذمہ بہنوں کو دینا بنتا ہے؟ براہ مہربانی وضاحت فرما دیں

وضاحت مطلوب:(1)بہنوں کو نہ دینے کی کیا وجہ ہے؟ (2)کیا بہنوں کی طرف سے مطالبہ ہے؟ جواب ضاحت: والد صاحب نے عام رواج کے مطابق بیٹوں میں جائیداد کی تقسیم زندگی میں کر دی ہے اور بیٹیوں نے نہ مطالبہ کیا ہے نہ والد صاحب نے ان کو حصہ دیا ہے٬ میں نے تو اپنی مسجد کے  مولانا صاحب کا درس سن کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر میرے ذمہ بہنوں کا کوئی حصہ بنتا ہے جو نہ دینے پر قیامت کے دن مجھ سے مطالبہ ہوگا ٬میں وہ دنیا میں ہی نمٹا دوں تا کہ میری جائیداد حلال ہو اور میری اولاد تک کسی غیر کا حق نہ پہنچے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر آپ کے والد نے صحت و تندرستی کے زمانہ میں آپ کو جائیداد دی اور آپ نے اس پر قبضہ بھی کر لیا تو یہ جائیداد والد کی طرف سے آپ کو ہبہ شمار ہوگی اس میں کسی کا کوئی حق نہیں البتہ آپ کے والد کا بیٹیوں کو جائیداد میں سے بالکل حصہ نہ دینا گناہ کی بات ہے اس لیےاگر آپ چاہتے ہیں کہ والد صاحب گناہ گار نہ  رہیں تو  آپ کو جو جائیداد ملی ہے اس میں سے بہنوں کا حصہ دیں یا  کچھ کم و بیش دے دلا کر انہیں راضی کرلیں ۔اور اگر بہنیں اس تقسیم پر دل سے رضا مند ہیں تو پھر مزید کچھ دینے دلانے کی ضرورت نہیں۔

ہندیہ (7/355)میں ہے:

رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون اثما فيما صنع.

ہندیہ(355/7) میں ہے:

ولو هب رجل شيء لاولاده في صحته واراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الاصل عن اصحابنا وروي عن ابي حنيفه رحمه الله انه لا باس به اذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين وان كانا سواء يكره.

شرح مجلہ (4023/) میں ہے:

اذا وهب احد في مرض موته شيئا لاحد ورثته وبعد وفاته لم تجز الورثة الباقون لا تصح تلك الهبة …وحاصل هذه المادة ان هبة المريض مرض الموت لاحد ورثته لا تجوز الا ان يجيزها الورثة الباقون بعد موت الواهب لان هبته وان كانت هبة حقيقة لكن لها حكم الوصية من حيث تعلق حق الوارث بها كما في البزازية ومعلوم انه لا وصية للوارث الا باجازة بقية الورثة.

آپ کےمسائل اور ان کا حل (464/7) میں ہے:

سوال: ہمارے والد وفات پا گئے ہیں ہم پانچ بھائی٬ ایک بہن اور ہماری والدہ ہیں لیکن ہمارے والد انتقال سے پہلے اپنی جائیداد٬ مکان ہمارے ایک ہی بھائی نوشاد کے نام کر گئے ہیں. بھائی کا کہنا ہے کہ والدین نے مجھے یہ جائیداد٬ مکان گفٹ کی ہے اس لیے اس پر اب کسی کا حق نہیں ہے لہذا آپ سے درخواست ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے بتائیں کہ کیا آپ اس پر یعنی جائیداد اور مکان پر ہمارا کوئی حق نہیں؟یا اگر تقسیم ہوگی تو کس طرح ہوگی؟

جواب: دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے والد نے جائیداد بیٹے کے نام کرکے قبضہ بھی اس کو دلا دیا اور خود قطعا بے دخل ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ بیٹا اس جائیداد کو بیچے٬ رکھے٬ کسی کو دے ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو اس صورت میں ہبہ مکمل ہو گیا یہ جائیداد صرف اسی بیٹے کی ہے۔ باقی وارثوں کا اس میں کوئی حق نہیں رہا لیکن دوسرے وارثوں کو محروم کر کے آپ کے والد ظلم و جور کے مرتکب ہوئے جس کی سزا وہ اپنی قبر میں بھگت رہے ہوں گے اگر وہ لائق بیٹا اپنے والد کو اس عذاب سے بچانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس جائیداد سے دستبردار ہو جائے اور شرعی وارثوں کو ان کے حصے دے دے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved