• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زندگی میں مکان بیوی کے نام کرنا، رقم کی وصولی کے لیے ن۔۔۔۔، لے پالک کا وراثت میں حصہ

استفتاء

میرے چھوٹے بھائی*** کی شادی 1991ء میں ہوئی۔ 10 برس گذر جانے کے بعد بھی اللہ نے کوئی اولاد عطا نہ کی۔ تو بھابھی نے اپنے کسی عزیز کا بیٹا گود لے لیا اور بھائی نے عدالت سے اس کا Guradian Certificate  حاصل کر لیا۔ اسی دوران بھائی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔ مرض اتنا بڑھا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ بھابھی کی والدہ اور بہنوں نے بھائی کو مجبور کیا کہ اپنا گھر بیوی کے نام کر دو، کیونکہ تمہاری اولاد نہیں ہے، لہذا تمہارے بعد تمہارے بہن بھائی اس کے دعوے دار ہوں گے۔ بھائی نے ان کے دباؤ میں آ کر مکان بیوی کے نام کر دیا، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بھائی کی طبیعت آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتی گئی اور انہوں نے بیوی کے ساتھ عمرہ کا ارادہ کیا، روانگی میں ابھی تقریباً 10 روز باقی تھے کہ بازار سے واپسی پر بھابھی موٹر سائیکل سے گر گئیں اور چند روز بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔  اب بچے کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا، بھائی سے کہا کہ بچہ اس کے والدین کے حوالے کر دو، پہلے تو انہوں نے انکار کر دیا بعد میں مطالبہ کر دیا کہ جائیداد بچے کے نام کرو گے تو ہم لیں گے۔ اس طرح یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اسی دوران بچے کا حقیقی والد بھی چل بسا۔ بھابھی مرحومہ کے گھر والوں کا مطالبہ ہوا کہ یہ مکان اب ہمارا ہے، کیونکہ ہماری بیٹی کی ملکیت ہے، لہذا تم اپنا شرعی حق لو اور مکان ہمارے حوالے کرو، اسی اثناء میں بھائی نے دوسری شادی کر لی۔

ستمبر 2011ء میں بھائی دوبارہ شدید بیمار ہو گیا اور اس کے گردوں کے ڈائیلسز ہونے لگے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھائی نے بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ اور ”ب“ فارم اپنے نام سے بنوا لیا، کہ کہیں پہلی بیوی کے گھر والے اس مکان کو نہ لے لیں۔ بچے کو اپنا نام دینے پر بیوی کے نام مکان وراثتی انتقال کے ذریعے بچے اور بھائی کے نام 4/3 اور 4/1 کے تناسب سے بالترتیب دو بارہ ان کے نام ہو گیا۔

بھائی نے گورنمنٹ کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی اور مبلغ 12،50،000 روپے نیشنل سیونگز میں جمع کروا دیے اور اس کی Nomination اپنی موجودہ بیوی کے نام کر دی۔ نئی بھابھی کے بھائیوں نے جعلسازی کے ذریعے بھائی کا مکان میں حصہ 4/1 کو بھی جعلی اقرار نامہ بنوا کر بیوی کے نام ظاہر کر دیا۔

3 دسمبر 2012ء کو بھائی کی وفات ہو گئی، موجودہ بھابھی کے بھائی جائیداد اور بنک کے تمام کاغذات اسی روز اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مسئلہ پر پنچائت ہوئی اور پنچائتی فیصلہ کے مطابق بنک میں موجودہ رقم کا 3/1 حصہ مبلغ 425000 روپے اور جعلی اقرار نامہ کی بنیاد پر مکان کا 4/1 حصہ مبلغ 750000روپے وصول کر لی۔ پنچائتی دباؤ پر ہمیں فیصلہ ماننا پڑا۔ بچہ اب ہمارے والدین کی زیر کفالت ہے، بچے کے بھائی جو کہ کراچی میں مقیم ہیں انہوں نے رقم کے لالچ میں مطالبہ کر دیا کہ تمام کاغذات اور بچہ ہمارے حوالے کرو، اب ہم اس کے وارث ہیں۔ پہلی بیوی کے گھر والوں کا بھی یہی مطالبہ ہے۔

1۔ کیا پہلی بیوی کے گھر والے اس مکان اور بچے کے وارث ہیں یا یہ مکان مرحوم اور اس کے لے پالک بیٹے (جبکہ اب بچہ اس کی ولدیت میں ہے) کا ہے؟

2۔ کیا بچے کے حقیقی ماں اس مکان کے 4/3 حصہ اور بچے کی وارث ہے؟

3۔ کیا یہ سب مال و متاع ترکہ ہے ؟ اگر ہے تو اس کے حقیقی ورثاء کون ہیں؟ جبکہ مرحوم کی بیوہ کے علاوہ والدین، تین بھائی اور ایک بہن موجود ہیں (بیوہ پہلے ہی اوپر بیان کردہ حصہ وصول کر چکی ہے اور اپنے گھر جا چکی ہے)۔

4۔ بچے کو اگر اس کی حقیقی ماں اپنی تحویل میں لیتی ہے تو اس  کا حصہ ہو گا یا نہیں؟ اگر ہو گا تو کیا؟

5۔ کیا مرحوم کا لے پالک کو ولدیت دینا بامر مجبوری جائز تھا۔ جس کی بنیاد پر وراثتی انتقال کے ذریعے بچے کے نام 4/3 حصہ منتقل ہوا، درست تھا؟ اگر درست تھا تو ترکہ کی کیا صورت ہو گی؟

6۔ شرعی اور اخلاقی طور پر مرحوم کے والدین اور بہن بھائیوں کی اس بچے کی کفالت کے ضمن میں کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیونکہ اس کی حقیقی ماں اور بھائیوں کو بچے سے زیادہ اس کی جائیداد کی فکر ہے، جبکہ گذشتہ 12 سال کے دوران انہوں نے کبھی اس کو واپس لینے کا اظہار نہیں کیا۔

7۔ بچے کی عمر 12 سال ہے اور چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے، اگر بچے سے رائے لی جائے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے اور اگر وہ حقیقی ماں اور بھائیوں کے ساتھ نہ جانا چاہے تو پھر کیا صورت ہو گی؟

8۔ اب بچے کے حقیقی بھائی اس کو کراچی لے گئے ہیں، لیکن چونکہ بچہ پیدائش سے اگلے روز ہی ہمارے مرحوم بھائی اور بھابھی کے پاس آ گیا تھا اور اس کے لیے حقیقی ماں باپ ہمارے مرحوم بھائی اور بھابھی ہی ہیں۔ لیکن محمد ریان (بچہ) جس کو زبردستی کراچی لے جایا گیا ہے وہاں پریشان ہے۔ کیا اس بچے کو کراچی بھیجنا شرعی اور صلہ رحمی کے خلاف تو نہیں؟ ہمیں اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا بچے کو اس کی مرضی کے بر خلاف زبردستی کراچی میں ہی رہنے دینا چاہیے یا اپنے پاس یعنی مرحوم کے والدین ، بہن بھائیوں کے پاس رکھا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب مکان بیوی کو مالک بنانے کی غرض سے بیوی کے نام کر دیا تو مکان بیوی کا ہو گیا، پھر بیوی کے فوت ہونے پر خاوند کو مکان 2/1 ملا،باقی بیوی کے ورثاء کا۔ پھر خاوند کے انتقال کے بعد اس کے حصے یعنی آدھے مکان میں سے دوسری بیوی کا حصہ 4/1 اور ماں کا حصہ 6/1، باقی باپ کا۔

اور پنشن کی یکمشت رقم بیوی کی نامزدگی سے بیوی کی ملکیت نہیں ہوئی، کیونکہ نامزدگی کی حقیقت زیادہ سے زیادہ وصیت کی ہے اور وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں، اس لیے پنشن کی رقم بھی مرحوم کا ترکہ شمار ہو گی جس میں سے موجودہ بیوی اور والدین کو اپنے اپنے مذکورہ حصوں کے بقدر ملے گا، البتہ ماہانہ پنشن جو ملے گی وہ صرف بیوی اور لے پالک لڑکے بالغ ہونے تک لڑکے میں مشترک ہو گی۔

نوٹ: شریعت کی رُو سے لے پالک لڑکے کا میراث میں کچھ حق نہیں، کیونکہ وراثت صرف نسبی اور حقیقی رشتہ داروں کو ملتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved