• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں میراث تقسیم کرنا

استفتاء

ایک بندہ اگر اپنی اولاد کو اپنی جائیداد وغیرہ اپنی حیات میں ہی ان کو دینا چاہتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟اگر جائز ہے تو اس صورت میں وراثت والی تقسیم  کرے یا پھر سب کو ایک سا حصہ دیدے بیٹوں کو بھی اور بیٹیوں کو بھی؟اگر اس میں کمی زیادتی ہو جاتی ہے مثلا کسی کو ایک پلاٹ  دے دیا کسی کو دوسرا پلاٹ دے دیا ان میں کچھ نہ کچھ قیمت میں کمی زیادتی ہو جاتی ہےیا پھر کسی کو گھر،کسی کو دکان دیدے تو کیا یہ صورت بھی ٹھیک ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی  وراثت تقسیم کرنا چاہتا ہےتو اس میں افضل طریقہ یہ ہے کہ بیٹے،بیٹیوں کو برابر دےاور یہ بھی درست ہے کہ بیٹے کو دو حصے او ر بیٹی کو ایک حصہ دے۔اور اگر کسی  بیٹے،بیٹی کو اس سے بھی کم وبیش دینا چاہے  اور اس کی کوئی معقول وجہ ہو، تو اس کی بھی گنجائش ہے ،تاہم کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا جائز نہیں ہے۔

بخاری شریف (حدیث نمبر: 2447) میں ہے:

حدثنا حامد بن عمر حدثنا أبو عوانة عن حصين عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما وهو على المنبر يقول  : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال  أعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم قال فرجع فرد عطيته

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرﷺکہتے ہیں (میری والدہ نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے اپنے مال میں سے ایک غلام ہدیہ کریں ۔ میرے والد نے ان کے مطالبہ کو ایک دو سال ٹالا لیکن پھر مجبور ہو کر) میرے والد نے مجھے (وہ غلام) ہدیہ (کرنے کا فیصلہ ) کر دیا (میری والدہ کو اتنی بات پر تسلی نہ ہوئی اس لئے توثیق کی خاطر میری والدہ) عمرہ بنت رواحہ نے کہا جب تک آپ اس پر رسول اللہﷺ کو گواہ نہ بنا لیں مجھے تسلی نہ ہو گی۔ میرے والد رسول اللہﷺکے پاس آئے اور کہا (میری بیوی عمرہ) بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام ہدیہ کر دوں تو میں نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو (غلام) ہدیہ (کرنا طے) کر دیا ہے لیکن اب اے اللہ کے رسول اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں (اس پر) آپ کو گواہ بنا لوں ۔ آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی جیسا ہدیہ (دینے کا فیصلہ ) کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔ (اس پر) آپﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری اور انصاف کرو۔ اس پر میرے والد واپس آگئے اور ہدیہ (کا فیصلہ) واپس لے لیا۔

فتاویٰ شامی (8/583) میں ہے:

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى

(قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد. رملي

ہندیہ(7/391 )میں ہے:

 (الباب السادس في الهبة للصغير) ‌ولو ‌وهب ‌رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

خلاصۃ الفتاویٰ (4/400) میں ہے:

وفي الفتاوى رجل له ابن وبنت اراد أن يهب لهما شيئا فالأفضل أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين عند محمد، وعند أبي يوسف بينهما سواء هو المختار لورود الآثار.

ولو وهب جميع ماله لإبنه جاز في القضاء وهو أثم نص عن محمد هكذا في العيون ولو اعطى بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا بأس به وإن كان سواء لا ينبغي أن يفضل

شامی(4/444)میں ہے:

ورد في الحديث أنه قال سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال رواه سعيد في سننه  وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة  وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره  وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved