- فتوی نمبر: 2-189
- تاریخ: 13 جنوری 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
عرض یہ ہے کہ میرے دو یتیم پوتے جو میری کفالت میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا والد 1999ء میں وفات پا چکا ہے اور والدہ نے دوسر ی شادی کر کے چلی گئی ہے۔ چونکہ شریعت میں پوتوں کو جائیداد سے محروم رکھا گیا ہے ۔ مگر بعض احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی جائیداد میں سے زمئن کا کچھ حصہ ان کے نام انتقال کردوتاکہ بعد میں یہ مکان کے معاملہ میں پریشان نہ ہوں۔ لیکن اگر میں کچھ حصہ انتقال کروں تو کیا وہ دوسرے وارثوں کا حصہ نہ ہوگا؟ اس معاملہ میں کیا کروں؟میری کل اولاد اور جائداد کی تفصیل ذیل میں ہے:
اولاد جو زندہ ہے،بیوی،ایک لڑکا اور 5لڑکیاں جو سب شادی شدہ اور عیالدار ہیں۔
جو فوت ہوئے: 2 لڑکے اور 2لڑکیاں (ایک بالغ 3 نابالغ)
زمین : کل زمین 17کنا ل ہے۔ جس میں ایک کنا ل 7مرلہ زرعی جس میں صرف مکئی کی فصل ہوتی ہے بمشکل ایک من یاکم باقی ساری زمین رکھ اور(بنجر)
مال مویشی : 2بکریاں ،2مرغیاں۔
رقم: بنک میں صرف 10ہزار روپے موجود،خود پنشر ہوں اور اس وقت 4600 روپے ماہوار پنشن لیتاہوں۔
عمر: 75 سال پوری ہوچکی ہے۔
مکان : 2کمروں پر مشتمل زلزم پروف مکان ہے کچن اور ہاتھ روم ساتھ ہے۔
ایسے حالات میں اپنی بچیوں اور پوتوں کو کیاکچھ دے سکتاہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ اپنی زندگی میں اپنے پوتوں کو کچھ جائیداد دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں بشرطیکہ تقسیم کرکے ان کو قبضہ بھی دے دیں۔ اور چاہیں تو ان کے نام کی وصیت لکھ دیں جو کل مال کے تیسرے حصے سے زائد نہ ہو۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved