- فتوی نمبر: 6-329
- تاریخ: 14 مارچ 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ہم چار بھائی ہیں “۱۔ ***، ۲۔ ***، ۳۔ ***، ۴۔ ***”۔ دو بھائی *** اور *** سپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں جو کہ والد صاحب نے شروع کروا کے دیا ہے اور اس کاروبار میں کسی بھی بھائی کی ذاتی انویسمٹمنٹ نہیں ہے، *** بھائی سرکاری نوکری کرتے ہیں اور *** ابھی کالج میں پڑھ رہا ہے اور آنے والے چند ماہ میں وہ بھی دکان پر ہی کام کرے گا *** اور *** کے ساتھ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری کل تین دکانیں ہیں، والد صاحب نے ایک دکان تو پوری کی پوری *** بھائی کے نام کر دی ہے اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ باقی کی دو دکانوں میں بھی اس کا حصہ ہو گا۔ اس کے علاوہ والد صاحب دکان کے کسی بھی قسم کے حساب کتاب سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور تمام معاملات *** بھائی کے سپرد کیے ہوئے ہیں حتی کہ والد صاحب کے نام پر دکان سے متعلق کوئی بنک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے، تمام اکاؤنٹس بھی *** بھائی ہی چلا رہے ہیں، ان میں کیا آ رہا ہے یا جا رہا ہے؟ یہ صرف *** بھائی کو ہی پتا ہوتا ہے۔ ہمارے کاروبار میں سال بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے حساب کیا جاتا ہے، باقی پورے سال میں کبھی نہیں۔ آپ کیا فرماتے ہیں کہ کیا اس ترتیب سے کاروبار کرنا شرعاً درست ہے؟ اگر نہیں تو صحیح صورت بھی بتا دیجئے۔
وضاحت: دکان قرض پر لی تھی اور کاغذات میں بھی دکان *** کے نام ہے اور والد صاحب نے فرمایا تھا کہ قرضہ اتارے گا تو دکان اس کی ہو گی۔ اور کاروبار بھی مشترکہ ہے۔ قرض دکان سے اتارا ہے۔
سرکاری نوکری کرنے والے بیٹے کا والد کے کاروبار اور دکانوں میں حصہ
*** بھائی سرکاری نوکری کر رہے ہیں وہ دکان پر وقت نہیں دیتے، ایسی صورت میں دکانوں میں یا راس المال میں ان کا کیا حصہ بنتا ہے؟ وہ جہاں ملازمت کر رہے ہیں وہاں سے ریٹائرڈ ہونے پر انہیں یکمشت ایک اچھی رقم مل جائے گی، تو کیا دکان سے بھی اتنا ہی حصہ ملے جتنا کہ *** کو؟
والد سے زندگی ہی میں تقسیم کا مطالبہ
*** کو مہینہ بعد صرف بارہ ہزار روپے مل جاتے ہیں خرچے کے لیے اور اس طریقہ سے *** کے پاس کچھ نہیں بچتا، کیونکہ اس کے تین بچے ہیں۔ *** والد صاحب سے مطالبہ کر رہا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ہی دکان اور راس المال کی تقسیم کا بتا جائیں۔ کیا *** کا یہ مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟
بیٹے کا والد کے کاروبار سے پراپرٹی بنانا
مزید یہ کہ کاروبار سے رقم نکال کر اگر کوئی بنائی جاتی ہے تو اس میں کون حقدار ہو گا؟ چاروں بھائی یا صرف دکان پر کام کرنے والے بھائی؟
دکانوں اور راس المال کی تقسیم
اور شرعی اعتبار سے باقی کی دکانوں اور کل راس المال کی کیا تقسیم ہونی چاہیے؟ تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں والد نے جو دکان *** کے نام کی ہے وہ اب *** کی ہے، البتہ دکان پر جو مال ہے وہ اور دیگر دوسری دکانیں اور مزید جو جائیداد ہے وہ والد کی ہے، ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دوسری اولاد کو بھی انصاف کے ساتھ حصہ دیں۔ کاروبار سے رقم نکال کر جو جائیداد بنائی ہو وہ سب والد کی ملکیت ہے۔
دفع لابنه مالاً ليتصرف فيه ففعل و كثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له و إلا فميراث بأن دفع إليه ليعمل للأب. (رد المحتار: 5/ 709)
و ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا و العدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف رحمه الله و قد أخذ أبو يوسف رحمه الله حكم وجوب التسوية من الحديث و تبعه أعيان المجتهدين و
أوجبوا التسوية بينهم و عليه الفتوی. (رد المحتار: 4/ 444) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved