- فتوی نمبر: 6-303
- تاریخ: 13 جنوری 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
***ولد*** جن کی زوجہ وفات پا چکی ہیں، کی کل جائیداد یہ ہے:
1۔ 3 عدد دکانیں مع مکان تقریباً قیمت ۔۔۔۔۔ 15000000 روپے (ڈیڑھ کروڑ)
2۔ 8 مرلہ خالی پلاٹ قیمت تقریباً ۔۔۔۔۔۔۔۔ 800000 روپے (آٹھ لاکھ)
3۔ 6 مرلہ مکان قیمت تقریباً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1200000 روپے (بارہ لاکھ)
4۔ 4 مرلہ مکان قیمت تقریباً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1200000 روپے (بارہ لاکھ)
مندرجہ بالا جائیداد غیر متنازعہ ہے اور***کی اولاد مندرجہ ذیل ہے: 5 بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہے۔ ایک بیٹا جو کہ سب سے بڑا تھا وہ فوت ہو چکا ہے جس کی اولاد میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، مرحوم کی زوجہ بھی حیات ہے۔
5۔ 10 مرلہ پلاٹ جس کی قیمت تقریباً ۔۔۔3000000 روپے (تیس لاکھ)
یہ پلاٹ متنازعہ ہے، بقول باپ یہ 10 مرلہ کا پلاٹ خرید کر میں نے اپنے بڑے بیٹے ***مرحوم کے نام کروا دیا اور زبانی کلامی یہ معاہدہ طے پایا کہ یہ پلاٹ آپ اور بقیہ جائیداد میں سے آپ کو حصہ نہیں ملے گا، بیٹے کی رضامندی پر ہی اس کے نام انتقال کروایا دیا۔***مرحوم نے خود بھی اس پر مکان بنایا جس پر اس کی بیوی کا قبضہ ہے، نیز وہ بقیہ جائیداد میں سے حصہ کی متمنی ہے۔
لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں مذکورہ جائیداد کی شرعی تقسیم کا فتویٰ صادر فرمائیں۔
نوٹ: زبانی معاہدہ پر گواہ بھی موجود ہیں۔ *** صاحب حیات ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
میراث کا تعلق وفات کے بعد سے ہے، زندگی میں انسان اپنی اولاد کو جو کچھ دے اس کی حیثیت ہبہ (گفٹ) کی ہے، جس کے لیے بہتر یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کو برابر، برابر دے۔ اگر کسی وجہ سے (مثلاً دینداری، خدمت گذاری یا کسی کی حالتِ احتیاج) کمی بیشی کرنا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
أما كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف رحمه الله العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية و لا يفضل الذكر علی الانثی، و ذكر محمد رحمه الله في المؤطأ: ينبغي للرجل أن يسوي بينهم و لا يفضل بيعضهم علی بعض و ظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف رحمه الله و هو الصحيح. (بدائع الصنائع: 5/ 183)
لا بأس بأن يعطي المتأدبين و المتفقهين دون الفسقة الفجرة. (بدائع الصنائع: 5/ 183)
© Copyright 2024, All Rights Reserved