• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

۱۔زندگی تک مکان پاس اور بعد میں وقف ہو کی صورت۲۔جوائنٹس اکاؤنٹ کے پیسے کو مالک بنانے کا حکم ۳۔اسلامی بینکنگ میں سرمایہ کاری کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں تقریبا 80 سالہ ریٹائرڈ شخص ہوں ،میری کوئی اولاد نہیں ہے ۔میں نے اپنے سالے کے بیٹے کو جب کہ وہ چھ ماہ سے بھی کم عمر تھا adopt کیا تھا ،میرا یہ بیٹا جوان ہو کر اب ایک عدد بیٹی کا باپ ہے ،میرے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں، میرے سات بھائیوں اور دو بہنوں میں سے اس وقت ایک بھائی اور ایک بہن زندہ ہیں اور یہ دونوں مجھ سے عمر میں بڑے ہیں۔ میں نے اپنے دو عدد مکانوں میں سے ایک اپنی بیوی کے نام کر دیا تھا جس نے بعد میں اس مکان کو ہمارے لے پالک بیٹے کے نام ہبہ کر دیا  ہے ۔ہم دونوں میاں بیوی بمع اپنے لے پالک بچے کی فیملی کے اسی مکان میں مقیم ہیں۔ دوسرے مکان کو میں نے کرایہ پر دے رکھا ہے جس کی آمدنی فیملی کی گزر بسر میں استعمال ہوتی ہے۔( لے پالک بچے کی تنخواہ ہم سب کی کفالت کے لئے ناکافی پڑ جاتی ہے۔)اب میں اپنے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔

1- میں چاہتا ہوں کہ اپنے نام پر میرا جو مکان ہے اسے اپنی زندگی میں رضائے الہی کے لئے وقف کر جاؤں لیکن ایسا کرنے سے میں اپنی اس ضروری آمدن سے محروم ہو جاتا ہوں جس سے میرا درج بالا وجوہات کی وجہ سے دستبردار ہونا محال ہے لہذا میں اس مکان کو صدقہ جاریہ کے طور پر کسی ایسے دینی ادارے کو دینا چاہتا ہوں جو کہ میری زندگی میں مجھے اس کی آمدن کو استعمال کرنے کا حق دے اگرچہ قانوناً میں اسے وقف کرکے اس کا قبضہ بھی حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔  کیا ایسا کرنا شرعا جائز ہوگا ؟ہوسکے تو اس وقف نامہ کی قابل عمل صورت سے بھی مطلع کریں

2- میرے حوالے جو اپنی بیگم کے ساتھ بینکوں میں جوائنٹ اکاؤنٹس ہیں ان کے بیلنس کو میں نے اور میری بیگم نے اپنی زندگیوں میں ہی ایک دوسرے کی ملکیت میں دے رکھا ہے ،لہذا کیا شرعا ان اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے پیسے ہم میں سے کسی ایک کی فوتگی کے بعد اس کے حصہ کی رقم اس کی وراثت کی شکل تو اختیار نہیں کر لے گی؟

(واضح رہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ہی ان اکاؤنٹ کے بیلنس کو جو کہ اگرچہ اس وقت ہم دونوں کی ملکیت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ہم نے آپس میں یہ طے کر رکھا ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی وفات کی صورت میں ان میں موجود رقم کا زندہ رہ جانے والا ساتھی ہی مالک ہوگا)

3 -کیا آج کل ہمارے ملک میں جو اسلامک بینک کاری ہو رہی ہے اس میں پیسے رکھ کر منافع حاصل کرنا اسلامی شریعت کے مطابق جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-اگر آپ وقف کرتے ہوئےیہ شرط لگادیں( اوربہتر ہے کہ وقف نامہ میں بھی یہ شرط لکھوا دیں) کہ

’’ میں اپنا فلاں مکان فلاں کار خیر کے لیے وقف کرتا ہوں اور ساتھ میں یہ شرط لگاتا ہوں کہ جب تک میں اور میری بیوی حیات ہیں اس وقت تک اس مکان کا کرایہ میں اور میری بیوی استعمال کرے گی ‘‘تو ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔

2-جوائنٹ اکاؤنٹس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بھی یہ رقم استعمال کرنے کی اجازت ہے اور محض استعمال کی اجازت سے وہ رقم دوسرے کی ملکیت نہیں بنتی لہذا میاں بیوی میں سے کسی ایک کے فوت ہونے کے بعداس کے حصے  کی  رقم میراث بنے گی اور اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی۔

3-ہماری تحقیق میں مروجہ اسلامی بینکاری اگرچہ کافی حد تک شریعت کے مطابق ہے تاہم پورے طور پر شریعت کے مطابق نہیں اسلئے کسی اسلامک بینک میں پیسے رکھ کر منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے ،تاہم بعض اہل علم کی تحقیق میں کچھ اسلامک بینک پورے طور پر شریعت کے مطابق ہیں،ان میں سے ایک میزان بینک بھی ہے اس لئے جہاں کوئی مجبوری کی صورت ہو وہاں میزان بینک یا کسی ایسے بینک میں جس کی نگرانی  مستند علمائے کرام کررہے ہوں پیسے رکھ کر منافع حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔مجبوری کی صورتوں کی تعیین خود کرنا کافی نہیں اس لیے اگر کسی کومجبوری کی کوئی صورتحال درپیش ہو تو اس کی ساری تفصیل تحریرا بیان کرکے درارالافتاء سے رجوع کیا جائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved