- فتوی نمبر: 15-215
- تاریخ: 09 ستمبر 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
محترم مفتیان کرام! ایک ساتھی جیل میں قید تھا، قید کے دوران اس نے نمازیں تقریباً چھ مہینےتیمم سے پڑھی ہیں بوجہ قید خانہ والوں کی طرف سے پانی جبراً نہ دینا۔ تو اب یہ دوبارہ اعادہ کرے گا یا ٹھیک ہے؟
فقہاء کرام نے اس صورت میں نمازوں کے اعادے کا حکم بیان فرمایا ہے۔ یعنی اس کو ان نمازوں کا اعادہ کرنا چاہیے۔
البحر الرائق: (1/248، کتاب الطہارت، باب التیمم) میں ہے:
الأسير في يد العدو إذا منعه الكافر عن الوضوء والصلاة يتيمم ويصلي بالإيماء ثم يعيد إذا خرج …. لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه اهـ. فعلم منه أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة.
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ضابطہ یہ ہے کہ وضو سے مانع اگر بندہ کی جانب سے ہو اور آدمی تیمم کر کے نماز پڑھے تو مانع کے زائل ہونے کے بعد اس نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ اور اگر مانع اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو اور آدمی تیمم کر کے نماز پڑھے تو اس کا اعادہ نہیں۔
پھر بندوں کی جانب سے مانع کی بھی دو صورتیں ہیں۔
1۔ بندوں کی طرف سے پانی استعمال کرنے پر کوئی دھمکی ہو۔
2۔ پانی کے استعمال سے رکاوٹ ہو لیکن دھمکی کوئی نہ ہو۔ البتہ آدمی کو خود یہ خوف ہو کہ اگر اس رکاوٹ کو توڑا تو اس کو ناقابل برداشت تکلیف اٹھانی پڑے گی۔
ان دو صورتوں میں پہلی صورت بندوں کی جانب سے مانع میں داخل ہے اور اس صورت میں نماز لوٹانی پڑے گی اور دوسری صورت اللہ تعالیٰ کی جانب سے مانع میں داخل ہے اور اس صورت میں نماز کا اعادہ نہیں۔
اس تفصیل کو سامنے رکھ کر سائل اپنی نمازوں کا اعادہ کرنے نہ کرنے کی نوعیت متعین کر سکتا ہے۔
فتاویٰ شامی: (سنن التیمم) میں ہے:
ثم إن نشأ الخوف بسبب وعيد عبد أعاد الصلاة وإلا لا ؛ لأنه سماوي.
© Copyright 2024, All Rights Reserved