- فتوی نمبر: 15-152
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب !(1)اگر ایک شخص ضرورت مند ہو اور اس کے پاس ایک دن اور ایک رات کا راشن موجود ہو تو ایسے شخص کو مسجد میں بھیک مانگنا شرعاً کیسا ہے؟
(2)در مختار (1/659)میں لکھا ہے ویحرم فیه السوال ویکره الاعطاء مطلقا وقیل ان تخطی اس عبارت کا مطلب کیا ہے ؟وضاحت فرمائیں ۔
(3)عام طور پر کتب فقہ میں امام صاحب کا یہ قول لکھا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک دن کا راشن موجود ہو تو ایسے شخص کے لئے سوال کرنا جائز نہیں اور مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے لکھا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا ہو تو اس کے لیے سوال کرنا اور اسے دینا حرام ہے ۔
اب سوال یہ ہے مفتی صاحب آج کل بھکاری بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور بازاروں میں ان کا ایک مخصوص دن ہوتا ہے مثلا ہمارے ہاں ہفتہ کے دن بھکاری بھیک مانگتے ہیں، اسی طرح گھروں میں عورتیں بھیک مانگنے کے لیے آتی ہیں تو ایسی صورت میں دینے والا کیا کرے؟ کیونکہ ان کو تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے پاس ایک دن کا راشن موجود ہے یا نہیں ؟مفتی صاحب اس مسئلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں ،عین نوازش ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1 ۔اگر وہ شخص راشن کے علاوہ دیگر ضروریات کے لئے مانگے تو مانگ سکتا ہے ،کیونکہ فقیر کی ضرورت صرف راشن کی ہی نہیں ہوتی بلکہ کپڑے گھر کے کرایہ اور قرض کی ادائیگی وغیرہ دیگر ضروریات بھی ہوتی ہیں۔
الدر المختار (2/ 355)
( ولو سأل للكسوة ) أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم ( جاز ) لو محتاجا۔فروع يندب دفع ما يغنيه يومه عن السؤال واعتبار حاله من حاجة وعيال
وایضافیه:
قوله(للکسوة) ومثلها اجرة المسکن ومرمة البیت الضروریة لا مایشتری به بیتا فیما مایظهر۔
وقوله:واعتبار حاله الخ اشار الی انه لیس المراد دفع ما یغنیه فی ذلک الیوم عن سؤال القوت فقط بل عن سؤال جمیع ما یحتاجه فیه نفسه وعیاله ۔۔۔۔والاوجه ان ینظر الی ما یقتضیه الحال فی کل فقیر من عیال وحاجة اخری کدهن ثوب وکراء منزل وغیر ذلک کما فی الفتح الخ
2۔ در مختار کی مذکورہ عبارت کے تحت علامہ شامی نے لکھا ہے :
حاشية ابن عابدين (1/ 659)
قوله ( وقيل إن تخطى ) هو الذي اقتصر عليه الشارح في الحظر حيث قال فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس في المختار لأن عليا تصدق بخاتمه في الصلاة فمدحه الله تعالى بقوله{ ويؤتون الزكاة وهم راكعون } المائدة 65
یعنی صاحب الدر نے خود اس قول کو ترجیح دی ہے کہ اگر سائل مسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے آکر نہیں مانگتا اور نہ ہی نمازیوں کے آگے سے گزرتا ہے تو اس کا مانگنا اور اسے دینا جائز ہے ۔ نیز شامی میں ہے:
حاشية ابن عابدين (2/ 164)
قال في النهر والمختار أن السائل إن كان لا يمر بين يدي المصلي ولا يتخطى الرقاب ولا يسأل إلحافا بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اه
3 ۔فتاوی رشیدیہ (617)میں ہے:
’’ اور دینے والے اگر ان کی حالت سے واقف ہوکر پھر دیں تو پھر وہ گنہگار ہوں گے۔‘‘
لہذا اگر آپ کو علم ہے کہ مانگنے والا اپنی ضروریات کے پورا ہونے کے باوجود مانگ رہا ہے تو نہ دیں ورنہ اگر دل مطمئن ہو تو دے دیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved