• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سالگرہ کے لئے موم بتیاں بنانے اور فروخت کرنے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب ہم خوبصورت اور دلکش موم بتیاں  بناتے ہیں جو مختلف تقریبات مثلاً سالگرہ، شادی کی سالگرہ، تحائف اور شو پیس وغیرہ کے لئے لوگ خریدتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سالگرہ اور شادی کی سالگرہ جیسی تقریبات جو کہ اسلام  کی تعلیمات کے منافی ہیں ان تقریبات کے لئے موم بتیاں بنانا اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ اس طرح موم بتیوں کا اصل مقصد ناجائز مواقع پر استعمال ہے اور عام عرف و عادت میں یہ ناجائز مواقع پر ہی استعمال ہوتی ہیں اس لیے ان کا بنانا اور بیچنا جائز نہیں ہے ۔اس کی فقہی نظیر آلات معازف(آلات موسیقی ) ہے کہ اس کی بیع ائمہ احناف کے ہاں بالاتفاق ناجائز ہے ۔البتہ امام صاحب ان کے  دوسرے جائز استعمال ممکن ہونے کی وجہ سے اس کی بیع کو منعقد  تو سمجھتے ہیں لیکن  عام عرف و عادت  میں اس کے ناجائز استعمال کی وجہ سے اس کومکروہ تحریمی قرار دیتے ہیں   اور صاحبین  عام عرف و عادت میں اس کے استعمال کو دیکھتے ہوئے  اس کی بیع کو منعقد ہی نہیں سمجھتے ۔

بدائع الصنائع، کتاب البیوع، فصل فی الشرط الذی یرجع الی المعقود علیہ(طبع: مکتبہ رشیدیہ ،جلد نمبر4 صفحہ نمبر337)  میں ہے:“ويجوز بيع آلات الملاهي من البربط والطبل والمزمار والدف ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف ومحمد لا ينعقد بيع هذه الأشياء لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها  ولأبي حنيفة رحمه الله أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء ونحو ذلك من المصالح فلا تخرج عن كونها أموالا وقولهما أنها آلات التلهي والفسق بها قلنا نعم لكن هذا لا يوجب سقوط ماليتها كالمغنيات والقيان وبدن الفاسق وحياته وماله وهذا لأنها كما تصلح للتلهي تصلح لغيره على ماليتها بجهة إطلاق الانتفاع بها لا بجهة الحرمة ولو كسرها إنسان ضمن عند أبي حنيفة رحمه الله وعندهما لا يضمن”ردالمحتار علی الدر المختار، باب المیاہ، فصل فی البئر (طبع: مکتبہ رشیدیہ ،جلد نمبر1 صفحہ نمبر427) میں ہے:قال ابن عابدین: مطلب. الكراهة حيث أطلقت فالمراد منها التحريم قال في البحر: واعلم أن المكروه ‌إذا ‌أطلق في كلامهم فالمراد منه التحريم إلا أن ينص على كراهة التنزيه، فقد قال المصنف في المصفى: لفظ الكراهة عند الإطلاق يراد بها التحريم. قال أبو يوسف: قلت لأبي حنيفة: إذا قلت في شيء أكرهه فما رأيك فيه؟ قال: التحريم. اهالبحر الرائق، كتاب البیع،  باب البیع الفاسد  (طبع:مکتبہ رشیدیہ  ،جلد نمبر 6صفحہ نمبر  117)میں ہے:لم يجز بيع الميتة والدم والخنزير والخمر والحر۔۔۔الخوقيد بالخمر والخنزير لأن بيع آلات اللهو كالبربط والطبل والمزمار والدف صحيح مكروه عند الإمام وقالا لا ينعقد بيعها ، والصحيح قوله للانتفاع بها شرعا من وجه آخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved