- فتوی نمبر: 25-383
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
تاجروں کے ہاں بعض وزنی اشیاء مزدور سے تلوائی جاتی ہیں مگر ان کی مزدوری مشتری سے لی جاتی ہے اور کبھی تاجر ایسی اشیاء کو اپنے ملازم مزدور سے تلوا کر مشتری سے مزدوری وصول کرکے خود لیتا ہے۔ شرعاً یہ دونوں صورتیں درست ہیں کہ نہیں؟ جبکہ عرفاً مشتری کو مجبوراً یہ مزدوری دینی پڑتی ہے۔
ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ فقہائے کرام کی کتابوں میں یہ صراحت ملتی ہے کہ سامان تولنے، ناپنے یا گننے کی اُجرت بائع (بیچنے والے) پر لازم ہوگی کیونکہ سامان حوالے کرنا بائع کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری میں ناپنا اور تولنا بھی شامل ہے اس لیے اس کی اجرت بائع پر ہوگی۔ لیکن فقہائے کرام نے جو یہ بات لکھی ہے یہ منصوص مسئلہ نہیں ہے بلکہ اپنے زمانے کے عرف پر قیاس کیا ہے۔ اس دور میں بھی بہت سی ایسی چیزیں بکتی ہیں کہ جس کی ناپ تول کی ذمہ داری بائع پر ہوتی ہے لیکن بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن میں عرف بدل گیا ہے اور تجار کے عرف میں اس کی اجرت مشتری پر ہوتی ہے چنانچہ فقہائے کرام نے تجار کے عرف کو معتبر مانا ہے چنانچہ فقہ کی کتابوں میں اس باب میں متعدد ایسی جزئیات موجود ہیں جن میں عرف کی بناء پر احکام لگائے گئے ہیں جیسے پانی خریدنے کی صورت میں پانی پہنچانے کی ذمہ داری پانی بیچنے والے پر ہوگی۔ ایسی طرح لکڑی کی خریدار ی میں لکڑی پہنچانے کی ذمہ داری لکڑی بیچنے والے پر ہوگی، وغیرہ۔
مفتی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ آج کے دور میں یہ عرف بدل گیا ہے ’’ مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ فقۂ حنفی کی مشہور کتاب ہے اس کی شرح میں بھی علامہ علی حیدر نے اپنے زمانے میں عرف بدل جانے کے بعد یہ بات لکھی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق عُرف سے ہے مجلّہ کی شرح دُرر الحکام کی عبارت اس سلسلے میں بالکل بے غبار ہے اس لئے لکڑی کے پہنچانے کی ذمہ داری اور ایسی چیزوں کے ناپ تول کی اُجرت مشتری پر واجب ہوگی۔
مفتی صاحب! رہنمائی فرمائیں کہ آج کے عرف میں یہ مزدور کی اجرت بائع پر لازم ہوگی یا مشتری پر؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ مفتی صاحب کی بات درست ہے یعنی اصولاً مبیع کو مشتری کے حوالے کرنے پر جو خرچے آتے ہیں وہ بائع کے ذمے ہوتے ہیں لیکن اگر کہیں اس کے خلاف عرف ہو جائے کہ مشتری کو یہ خرچے اٹھانے پڑتے ہوں تو ایسی صورت میں یہ خرچے مشتری کے ذمے ہوں گے ۔
نوٹ: سوال چونکہ اصولی تھا اس لیے اصولی جواب دیا گیا ہے اگرکسی خاص جزئی صورت کا جواب مقصود ہو تو اس کے لیے اس صورت کی مکمل تفصیل لکھ کر سوال کریں۔
فتاوٰی قاضی خان علی ہامش الہندیہ ط رشیدیہ (4/292)میں ہے :ولو اشترى حنطة او ثيابا في جراب كان فتح الجراب على البائع واخراج الثياب على المشترى وقيل كما يجب الكيل على البائع فالصب في وعاء المشترى يكون عليه ايضا وكذا لو اشترى ماء من سقاء في قربة كان صب الماء على السقاء والمعتبر في هذا العرففتاوى ہندیہ (4/301) میں ہے:ولو اشترى حنطة مكايلة فالكيل على البائع وصبها في وعاء المشترى على البائع ايضا هو المختار كذا في الخلاصة وکذا لو اشتری ماء من سقاية في قربة كان صب الماء على السقاء والمعتبر في هذا العرف كذا في فتاوى قاضي خانالبحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (5/511)میں ہے :(وأجرة الكيل على البائع) يعني إذا بيع مكايلة وكذا أجرة الوزان والعداد عليه والذراع لانه من تمام التسليم وتسليم المبيع عليه فكذا ما كان من تمامه. قيد بالكيل لان صب الحنطة في الوعاء على المشتري، وكذا إخراج الطعام من السفينة،وكذا قطع العنب المشتري جزافا عليه، وكذا كل شئ باعه جزافا كالثوم والبصل والجزر إذا خلي بينها وبين المشتري، وكذا قطع الثمر إذا خلي بينها وبين المشتري، كذا في الخلاصة. . . . . . . . . . . . . . وكذا لو اشترى ماء من سقاء في قربة كان صب الماء على السقاء والمعتبر في هذا العرف، كذا في الخانيةشرح المجلۃ للاتاسی(2/222) ميں ہے :وكذا اجرة العداد والذراع اذا بيعت بشروط العد والذرع اه( مسكين ) لان التسليم عليه وهذا من تمامه ولو اشترى حنطة في سنبلها فعلى البائع تخليصها بالدرس والتذرية ودفعها للمشتري هو المختار …….. ولو اشترى ثيابا في جراب ففتح الجراب على البائع واخراج الثياب على المشترى الا اذا كا ن العرف بخلافه كما لو اشترى ماء في قربة فان صبه يكون على البائع (ابو سعود ) لكن قال الحموي:اخراج الثياب من الجراب من تمام التسليم فينبغي ان يكون على البائع انتهى وكذا صب الحنطة في وعاء المشترى على البائع (فتح) و في البحر عن الخانية المعتبر في هذا العرف اهدرر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 245)میں ہے :(المادة 289) :المصارف المتعلقة بتسلم المبيع تلزم البائع وحده مثلا أجرة الكيال للمكيلات والوزان للموزونات المبيعة تلزم البائع وحده. هذا في المكيلات والمعدودات والمذروعات والموزونات التي لم تبع جزافا فهذه المصارف تلزم البائع لأن الكيل والعد والذرع والوزن من متممات تسليم المبيع ولما كان تسليم المبيع لازما له فيلزمه ما يتم به نفقة ما يكون به تسليم المبيع لازمة له (مجمع الأنهر)«فإذا باع شخص حمل سفينة حطبا كل قنطار بعشرين قرشا فأجرة تسليم القنطار تلزم البائع إلا أن العمل في زماننا جار على أخذ الأجرة من المشتري حسب النظام المخصوص وكذلك أجرة إفراغ الحنطة في الأعدال (الأكياس) تعود على البائع وكذلك إذ اشترى ماء من السقاء بالقربة فصب الماء في إناء المشتري يعود على البائع (انظر المادة 43) ويعتبر في ذلك العرف (هندية)»۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved