• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بینک اور لیزنگ کمپنی سے قسطوں میں کوئی چیز لینا اور اس کا ایجنٹ بننا

استفتاء

3۔ آج کل بینکوں نے قسطوں پر گاڑی، مکان، پلاٹ وغیرہ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ چند علماء کرام کی متفقہ رائے کے مطابق یہ کاروبار کرنا صحیح ہے۔ مگر یہاں یہ سوال ہے کہ بینک جس پیسے سے وہ گاڑی خرید کر ہمیں دے گا وہ پیسہ بینک نے ناجائز ذرائع سے کمایا ہے تو کیا ایسی صورت میں وہ گاڑی بینک سے قسطوں پر لی جاسکتی ہے؟ اب اگر تو یہ جائز نہیں تو کیا کسی لیزنگ کمپنی سے جو کہ صرف گاڑیوں اور دیگر اجناس کی قسطوں کا کاروبار کر رہی ہیں ان سے قسطوں پر گاڑی حاصل کرنا جائز ہے؟

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لیزنگ کمپنی کی آمدنی کا ذریعہ صرف قسطوں کا کاروبار ہے اور وہ قرضہ یا ادھار لے کر سود ہرگز نہیں دیتے۔ جو بھی گاڑی ۔۔۔ پر حاصل ہوتی ہے اس کے اصل کاغذات بینک کے پاس اور مالکان میں بھی بینک کا نام ہی ہوتا ہے، استعمال کرنے والا نہ تو گاڑی کو آگے بیچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو قسطوں پر دے سکتا ہے ( یہ دو باتیں بینک کے اصول اور قوانین میں موجود ہیں)۔ کیا ایسی صورت میں یہ معاملہ فاسد ہو جائے گا؟ اب جبکہ  بینک نے گاڑی کی وہ رقم شو روم کے مالک کو ادا کر دی اور ہمیں وہ گاڑی دے چکا یا پھر مکان کی قیمت ادا کر دی تب بینک نے یا لیزنگ کمپنی اس گاڑی کی انشورنس بھی کرواتی ہے تاکہ نقصان کی صورت میں بینک ہر لحاظ سے محفوظ رہے۔ جبکہ انشورنس کا ماہانہ پریمیم استعمال کرنے والے کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں پر پہلا سوال یہ ہے کہ انشورنس کروانا جائز ہے یا ناجائز؟ اور کیوں؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر بینک یا لیزنگ کمپنی انشورنس کروانے کی شرط کے ساتھ گاڑی استعمال کرنے والے کے حوالے کر رہی ہے ( تاکہ نقصان سے بچا جائے) تو کیا ایسی صورت میں بینک یا لیزنگ کمپنی سے گاڑی حاصل کرنا صحیح ہوگا؟

4۔ اس سوال میں اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ اگر بینک یا لیزنگ کمپنی سے گاڑی حاصل کرنا صحیح ہے تو پھر اس گاڑی کو کسی کو ( جو کہ گاڑی بینک یا لیزنگ کمپنی سے نہ لے سکتا ہو) دلوا دینا اور اس پر کچھ اضافی رقم اس لین دار سے بطور منافع حاصل کرنا جائز ہوگا؟ دوسری بات یہ کہ اگر ایک گاڑی کو بینک یا لیزنگ کمپنی سے کوئی شخص حاصل کرچکا ہے اور اب اس کو فروخت کرتا ہے تو کیا اس پرانی گاڑی کا کاروبار کیا جاسکتا ہے یعنی دین دار کو کم پیسے دیکر گاڑی اٹھانا اور زیادہ پیسوں میں آگے فروخت کر دینا اور نفع کمانا؟ اس تمام کاروبار میں چاہے پرانی گاڑی کی لیزنگ کا کام ہو یا کہ نئے گاڑی کا اصل مال وہ ادارہ ہی ہوگا اور کاغذات اسی کے پاس ہوں گے مگر جب قسطوں کا سلسلہ پورا ہوا اور ادارے کا ایک روپیہ بھی باقی نہ رہا تو کاغذات استعمال کرنے والے کو مل جائیں گے۔ ایسا عملی اقدام ادارہ احتیاط کے تحت کرتا ہے۔

معزز علمائے کرام و مفتیان دین سے یہ گذارش ہے کہ بینک کی قسطوں کی گاڑی اور لیزنگ کمپنی کی قسطوں کی گاڑی کے فرق کا بغور جائزہ لیں اور دونوں صورتوں کا جواب الگ الگ دیں یعنی بینک کی گاڑی کے لیے اور لیزنگ والی بھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

3۔4۔ بینک اور لیزنگ کمپنیوں کا قسطوں پر گاڑی وغیرہ دینے کا مروجہ طریقہ شرعاً ناجائز ہے۔ جو علماء اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ہمیں ان سے اتفاق نہیں کیونکہ بینک کے طریقے حرام کی ملاوٹ سے پاک نہیں۔

نیز بینک کمپنی کا کمیشن ایجنٹ بننا بھی درست نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved