- فتوی نمبر: 16-9
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مختلف اجناس کی خرید و فروخت ہوتی ہے، زمیندار اپنا غلہ آڑھتی کے پاس لاتے ہیں اور آڑھتی اسے فروخت کر کے اپنی کمیشن لیتا ہے۔
منڈی میں رقم کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں:
1۔ جب مال بک جاتا ہے تو بعض اوقات زمیندار فوراً پیسے مانگتا ہے تو آڑھتی اپنے پاس سے دے دیتا ہے پھر خریدار سے خود وصول کر لیتا ہے۔ منڈی میں رقم کی ادائیگی کے لیے 12 دن کی مدت کا رواج ہے، اس سے لیٹ نہیں کرتے۔
2۔ بعض اوقات زمیندار آڑھتی کی جان پہچان والا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ پیسے دو چار ماہ بعد دے دینا۔
مذکورہ صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں آڑھتی پر لازم نہیں کہ وہ خریدار کی طرف سے رقم وصول ہونے سے پہلے زمیندار کو اپنی طرف سے ادائیگی کرے تاہم اس کے باوجود اگر آڑھتی اپنے پاس سے زمیندار کو رقم کی ادائیگی کردے تو یہ آڑھتی کی طرف سے زمیندار پر قرضہ شمار ہوگایعنی اگر بالفرض آڑھتی پوری کوشش کے باوجود خریدار سے رقم وصول نہ کرسکے تو یہ رقم زمیندار کی ضائع ہوگی اور آڑھتی اپنی دی ہوئی رقم زمیندار سے واپس لینے کا حقدار ہوگا۔ کیونکہ آڑھتی کی طرف سے دی گئی رقم نہ تو خریدار کی طرف سے ادائیگی پر محمول ہوسکتی ہے کیونکہ اگر اس پر محمول کریں تو یہ ادائیگی چونکہ خریدار کے امر کے بغیر ہے، لہٰذا آڑھتی کو خریدار سے قیمت وصول کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے حالانکہ یہ بات عرف کے خلاف ہے اور نہ ہی اس ادائیگی کو اس پر محمول کر سکتے ہیںکہ آڑھتی نے خریدار کے ذمے زمیندار کی جو ثمن تھی اس کے بدلے میں یہ ادائیگی کی ہے کیونکہ یہ صورت بیع الدین من غیر من علیہ الدین کی بنتی ہے۔
2۔ زمیندار کا آڑھتی کو جان پہچان کی وجہ سے یہ کہہ دینا کہ پیسے دو چار ماہ بعد دے دینا، درست ہے۔
(۱) لما في درر الحکام (۳/۶۱۷) طبع: دار عالم الکتب، رياض
(المادة: ۱۵۰۲) (لا يجبر الوکيل بالبيع علي أداء ثمن المال الذي باعه من ماله إذا لم يأخذ ثمنه من المشتري) . انظر إلي المسألة الثانية والعشرين من الخاتمة التي في شرح المادة (۱۱۱۲) حتي إن الوکيل بالبيع إذا أعطي ثمن المال الذي باعه إلي الموکل بدون أمر المشتري کان متبرعا ويفقد حق رجوعه علي المشتري انظر شرح المادة (۱۵۰۷) .مثلا لو أعطي الوکيل بعد أن باع مال الموکل بألف قرش ذلک إلي الموکل من دون أن يقبض ثمن المبيع ومن دون أمر المشتري کان متبرعا کذلک لو باع الوکيل بالبيع مالا لموکله ووقع التقاص مع الدين الذي لم يؤخذ من المشتري بعد کان متبرعا أيضا. لکن لو أعطي الوکيل بالبيع الثمن لموکله من ماله علي أن يبقي ثمن المبيع الذي في ذمة المشتري فلا يصح ذلک وللوکيل أن يسترد ذلک الثمن، مثلا لو شرط الوکيل بالبيع أن تکون الف قرش الذي في ذمة المشتري في المثال المذکور آنفا له وأعطي المبلغ المذکور لموکله علي هذا الشرط ورضي الآخر بذلک لا يصح وللوکيل في هذه الصورة أن يسترد ما أعطاه لموکله ويلزم المشتري إعطاء ثمن المبيع (الطحطاوي، والأنقروي) .
وکذا لو ترک عدة أشخاص أموالهم عند تاجر لأجل البيع وباع التاجر أيضا تلک الأموال نسيئة وأدي إلي أصحابها أثمانها قبل أن يقبض أثمانها من مشترييها علي أن يبقي له ما في ذمة المشتريين وأفلس المشترون بعد ذلک فلذلک التاجر أن يسترد من أولئکم الأشخاص نقوده (الطحطاوي وتکملة رد المحتار) . قيل (إذا لم يأخذ ثمنه) ؛ لأن الوکيل بالبيع إذا أخذ ثمن المبيع من المشتري لزمه إعطاؤه للموکل انظر المادتين (۱۴۶۳و ۷۹۴)۔ لکن إذا لم يأخذ الوکيل بالبيع ثمن المبيع من المشتري واشتري في مقابله أمتعة کانت الأمتعة التي اشتراها له ويلزمه أن يضمن ثمن المبيع لموکله.
(۲) و في الفتاويٰ التاتارخانية (۱۲/۳۸۵) طبع: زکريا بکڈپو، ديوبند سهارنفور
قال ابن سماعة سمعت ابا يوسف يقول في رجل دفع الي رجل متاعاً يبيعه فباعه نسيئة فقال له رب المتاع: ان رايت ان تتادي من عندک فافعل ثم توي المال علي مشتري العبد فانه يرجع علي رب المال بما اداه اليه۔
(۳) و في المحيط البرهاني (۵۱/۱۱۲) طبع: ادارة القرآن و العلوم الاسلامية، کراتشي
و اما الفرق بين البيع و القضاء و هو انه متي لم يشترط ان يکون الثمن له، کان هٰذا قضائً عرياً عن الشرط، فکان صحيحاً، و متيٰ شرط ان يکون الثمن له، فقد شرط فيه تمليک الدين من غير من عليه الدين، و انه شرط فاسد، و القضاء مما يبطل بالشروط الفاسدة
© Copyright 2024, All Rights Reserved