- فتوی نمبر: 16-182
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک > سودی بینکاری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ ایک بندہ بینک میں نوکری کرتا ہے۔ کیا اسے کوئی چیز بیچ کر لیے گئے پیسے ہمارے لیے حلال ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بالکل حلال ہیں۔ آپ نے اس سے اپنی چیز یا خدمت کا معاوضہ لیا ہے۔ یہودی نبوی دور کے سب سے بڑے سودی تھے۔ صحابہ کرام ان کے ہاں مزدوری بھی کرتے تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے ہاں گروی رکھی ہوئی تھی۔
مفتی صاحب کیا یہ مسئلہ درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو شخص بینک کی کوئی ایسی نوکری کرتا ہو جو ناجائز ہو اور اس کا کوئی اور جائز ذریعہ آمدنی نہ ہو یا ہو لیکن بینک کی نوکری سے ملنے والی تنخواہ کے مقابلے وہ مغلوب ہو تو ایسے شخص کے بارے میں اصل حکم تو یہی ہے کہ اس کو کوئی چیز فروخت کر کے لیے گئے پیسے جائز نہیں مگر یہ کہ وہ یہ کہے کہ جو پیسے میں تمہیں دے رہا ہوں وہ حلال ذریعے سے میرے پاس آئے ہیں تو اس صورت میں اسے کوئی چیز فروخت کرکے پیسے لینا جائز ہے۔یہودیوں کے ہاں جو صحابہ کرام کی نوکری کا تذکرہ کیا گیا ہے ،اس میں یہ ضروری نہیں کہ جس صحابی نے جس یہودی کے ہاں نوکری کی تھی وہ سودی کاروبار کرتا تھا، کیونکہ ہر یہودی تو سودی کاروبار میں ملوث نہ تھا اور اگر وہ سودی کاروبار کرتا بھی تھا تو یہ ضروری نہیں کہ اس کی غالب آمدنی صرف سود کی تھی، کیونکہ ان کے دیگر ذرائع آمدن بھی تھے جن میں سود نہ تھا، لہذا یہودیوں کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نوکری کرنے سے لازم نہیں آتا کہ بینک کے ملازم کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرکے اس کے پیسے لینا جائز ہو، البتہ موجودہ دور میں چونکہ حرام کی کثرت ہےاور بعض سود یا حرام کی آمدن والے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دکاندار انہیں اپنی چیز فروخت کرنے سے انکار نہیں کرسکتا،اس لئے بعض علماء کا قول یہ ہے کہ موجودہ دور میں حرام آمدن والے لوگوں کو اپنی چیز فروخت کرکے ان سے پیسے لینے کی گنجائش ہے،اس لیے اگر کوئی اپنی مجبوری کے پیش نظر ان بعض علماء کے اس قول پر عمل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved