• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مروجہ رہن کی شرعی حیثیت

استفتاء

درج ذیل مسئلہ میں رہنمائی مطلوب ہے۔ آج کل گروی پر مکان دینے کا عام رواج ہے۔ مرتہن اس مکان ( مرہونہ ) کو استعمال کرتا ہے اور اس سے نفع اٹھا تا ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں۔ پھر بعض لوگوں نے یہ طریقہ نکالا کہ مرتہن مکان کا معمولی سا کرایہ دے دیتا ہے جو کہ عام رواج سے بہت کم ہوتا ہے۔ یہ بھی شرعاً جائز نہیں کہ کرایہ عام رواج سے قرض کی وجہ سے کم ہوا۔

یہ مسئلہ بہت عام ہے کہ ایک شخص کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اور فوری طور پر پیسوں کی ضرورت ہے لیکن کوئی قرض حسنہ دینے کے لیے تیار نہیں جبکہ اس کے پاس گھر وغیرہ ہے جسے گروی پر رکھوا سکتا ہے لیکن مرتہن عام رواج کے مطابق مرہونہ چیز سے نفع اٹھانا چاہتا ہے۔ عام طور میں لوگ بے دینی کی وجہ سے مسئلہ پوچھتے ہی نہیں اورجو پوچھتے ہیں تو جب انہیں مسئلہ بتایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ” اس مجبوری کے وقت میں ہم اب کیا راستہ اختیار کریں” کچھ واقعات ایسے پیش آئے کہ مسئلہ بتانے کے باوجود لوگوں نے مجبور ہو کر گروی مروجہ طریقہ اختیار کر کے اپنی ضرورت پوری کی۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مذکورہ معاملے میں رہن کے علاوہ کوئی اور صورت ایسی بن سکتی ہے جس میں  ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری جائے اور روپیہ مہیا کرنے والے کو کچھ فائدہ بھی حاصل ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گروی کا مروجہ طریقہ جائزنہیں۔ گروی کے متبادل جائز طریقے بھی ہیں:

1۔ آدمی اپنا مکان فروخت کر دے او ر دوسری جگہ کرائے پر رہے یا اپنے پاس دوسرا مکان ہے تو اس میں رہے کیونکہ گروی کی صورت میں بھی اس کو اپنا مکان خالی کرنا پڑے گا اور جب تک رقم واپس نہ کرے گا مکان دوسرے کے پاس رہے گا۔

2۔ وہ اپنا مکان مثلاً پانچ سال یا زائد  مدت کے لیے کرایہ پر دے دے اور پانچ سال کا کرایہ یکمشت وصول کرلے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved