• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس گاؤں میں پہلے سے جمعہ ہو رہا ہو

  • فتوی نمبر: 5-131
  • تاریخ: 16 جولائی 2012

استفتاء

بندہ ( رشید عالم ملاخیل ) گاؤں عبدل خیل ضلع لکی مروت صوبہ خیبر پختون خواہ کا باشندہ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے ہمارے گاؤں میں نماز جمعہ کا اختلاف ہے۔ گاؤں کی بڑی مسجد محلہ محمود خیل میں نماز جمعہ ادا ہورہا ہے۔ جبکہ دوسری مساجد میں بوجہ اختلاف کے جمعہ ادا نہیں ہو رہا ہے۔یہ اختلاف نشیب و فراز کی مختلف مراحل سے نیز آپس میں متعارض فتووں کی محاذ آرائیوں سے گذرتے ہوئے انتہائی عروج پر جا کر مسئلہ  لا ینحل کا منظر پیش کر رہا ہے۔

استفتاء برائے جمعہ در عبدل خیل لکی مروت

ہمارا گاؤں عبدل خیل لکی شہر سے تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی آبادی موجودہ مردم شماری کے مطابق علے التحقیق چار ہزار دوسو (4200) افراد ہے۔ پانچ مساجد ہیں، جسمیں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ تقریباً ہر مسجد میں ناظرہ، حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک  دینی مدرسہ ہے۔ اس میں بھی ناظرہ، حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عصری علوم حاصل کرنے کے لیے دو پرائمری سکول، ایک پبلک سکول، جبکہ دو گرلز سکول ہیں جسمیں پرائمری اور مڈل تک تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک ہائیر سکینڈری سکول ہے جس سے اہل گاؤں کے علاوہ قریبی دیہاتوں کے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ایک ( بی ۔ ایچ۔  یو ) ہسپتال ہے، جس میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ہے۔ البتہ انچارچ میڈیکل ٹیکنیشن، ایک ڈسپنسر اور ایک ایل ۔ ایچ۔ وی اور معمول کے مطابق ڈیوٹی پر آتے ہیں۔ ایک میڈیکل سٹور ہے، جس میں گااؤں کے لوگ انچارج میڈیکل ٹیکنیشن سے بنیادی علاج معالجہ کرواتے ہیں۔

گاؤں میں تقریباً 25 دکانیں ہیں جو کہ متصل نہیں ہیں البتہ اس میں روز مرہ استعمال کی عام چیزیں مثلاً آٹا، سوجی، چاول، دال ، چینی، چائے، گھی، سبزیاں، فروٹ، گوشت، سرسوں کا تیل، مٹی کا تیل ، پٹرول،گیس وغیرہ ملتی ہیں۔ بعض دکانوں پر مردانہ ، زنانہ کپڑے،  چپل، جوتے اور عام  استعمال ہونے والی دوائیاں بھی ملتی ہیں۔ اس طرح گاؤں میں ڈیزل ایجنسی، ٹائر پنکچر، لکڑی منڈی اور آرا مشین کی سہولت موجود ہے، البتہ آرا مشین اکثر اوقات بند رہتا ہے۔ صرف ضرورت کے موقع پر کبھی کبھار چلتا ہے۔ اکثر لوڈ شیڈنگ رہتی ہے جس کی وجہ سے لوگ کافی پریشان ہوتے ہیں۔ آٹے پیسائی کی پہلے تقریبًا  تین چار مشینیں تھیں اب ایک ہے جو اکثر اوقات بند رہتی ہے، ضرورت کے وقت لوگ آٹا پیسنے کے لیے دوسرے گاؤں جاتے ہیں یا گاؤں کے لوگ دکان یا بازار سے تیار آٹا منگواتے ہیں، گاؤں میں اب تک تین ٹیوب ویل قائم ہوچکے ہیں، جو کچھ عرصے تک چلنے کے بعد اب بند پڑے ہیں، بعض کو صرف اپنی ضرورت کے لیے چلایا جاتا ہے ( جو اہل گاؤں کا آپس میں بے اتفاقی اور سیاسی اختلاف کا نتیجہ ہے)۔ اس وقت لوگوں کا گذر اوقات بارش کے پانی  سے ہے، گاؤں میں بڑے بڑے شرعی تلاب ہیں جس میں لوگ بارش کا پانی روک کر استعمال کرتے ہیں۔ بارشوں کا مسلسل طویل عرصے تک منقطع ہونے کی صورت میں دوسرے دیہاتوں سے کرایہ پر پانی ٹینکر منگواتے ہیں۔ گاؤں میں موبائل فون کی سہولت موجود ہے۔ تھانہ پولیس گاؤں سے تقریباً 15 کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے۔ ڈاکخانہ بھی ہے جس سے خط و کتابت، منی آرڈر وغیرہ کی ضروریات پوری ہوتی ہے۔ البتہ اس میں بجلی کے بل جمع نہیں کرائے جاتے ہیں اور نہ اس میں تنخواہیں لی جاتی ہیں۔ گاؤں کے اکثر راستے کھلے، کشادہ جب کہ بعض تنگ بھی ہیں ۔اینٹ بنانے کے تقریباً دس چھوٹے بھٹے ہیں۔

ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لیے گاؤں میں تقریباً آٹھ دس گاڑیاں ہیں یعنی ڈاٹسن، فلائنگ کوچ، موٹر، ٹیکسی وغیرہ جو مقررہ اوقات میں لوگوں کو اپنے شہر کے علاوہ دوسرے دیہاتوں اور علاقوں تک کرایہ پر لے جاتی ہیں۔ البتہ بسا اوقات ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے شہر تک جانے میں کافی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پانچ ٹریکٹر، ٹرالے، پانی ٹینکر، تھریشر وغیرہ آلات زراعت بھی موجود ہیں۔

حفاظ کے علاوہ 30 سے زائد فارغ التحصیل علماء کرام  اور سترہ گریڈ کے افسران بھی موجود ہیں۔ اس گاؤں میں معمار، مزدورطبقہ بھی موجود ہے، جو تعمیراتی کام کو اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے گاؤں میں لوہار، ترکان، حجام، موچی، درزی وغیرہ کی دکانیں ہیں، جن کے پاس اہل گاؤں کے علاوہ قریبی دیہاتوں کے بعض لوگ بھی کام کروانے کےلیے آتے ہیں۔

آنجناب سے درج ذیل سوالات کے جوابات ترتیب وار باحوالہ تحریر کرنے کی مودبانہ گذارش کی جاتی ہے:

1۔ نماز جمعہ اور عیدین کے واجب ہونے کے لیے شہر اور قصبے کا ہونا ضروری ہے، یا بڑے گاؤں کے اندر بھی نماز جمعہ اور عیدین قائم کرنا درست  اور جائز ہے؟

2۔ کسی گاؤں کو ملحق بالقصبہ کرنے کے لیے تمام تعریفات اور علامات کا صادق آنا ضروری ہے یا کوئی بھی تعریف صادق آئے تو اس گاؤں کو حکماً شہر اور قصبے جیسا قرار دیا جاسکتا ہے؟

3۔ کسی گاؤں کو ملحق بالقصبہ کرنے کے لیے تعداد افراد کو معیار بنایا گیا ہے، یا ضروریات اور سہولیات کو معیار بنایا گیا ہے، یا دونوں کو، موجودہ دور میں مفتیان کرام کا عام رجحان کس تعریف کی طرف ہے؟

4۔ ہمارے گاؤں عبدل خیل ضلع لکی مروت کی متصل آبادی موجودہ مردم شماری کے مطابق علے التحقیق چار ہزار دو سو افراد ہے۔ روزمرہ استعمال کی چیزیں عام طور پر ملتی ہیں، اکثر ضروریات اور سہولیات بھی میسر ہیں۔  البتہ بعض ضروریات اور سہولیات میسر نہیں ( جس کی تفصیل استفتاء میں موجود ہے )۔ کیا ایسے بڑے گاؤں کو بھی حکماً شہر اور قصبے جیسا قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس میں جمعہ اور عیدین قائم کرنا درست ہوگا۔

5۔ ہمارے گاؤں عبدل خیل کی بڑی مسجد محلہ محمود خیل میں عرصہ ڈیڑھ سال سے نماز جمعہ ادا ہو رہا ہے جبکہ دوسری مساجد میں بوجہ اختلاف کے ادا نہیں ہورہا ہے۔ اختلاف کچھ یوں شروع ہو گیا کہ گاؤں کے ایک مولوی اقبال نے دس تحقیقی ، تفصیلی فتووں کی بنیاد پر نماز جمعہ شروع کرایا۔ گاؤں کے دوسرے علماء کرام نے گاؤں کا معاینہ کرنے کے بعد عدم جواز کا فیصلہ سنایا، جس کی مولوی اقبال نے چند وجوہات کی بناء پر تسلیم نہیں کیا: (۱) ہمارے علاقے کے علماء کرام میں سے بعض جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ مفتی سیف اللہ مروت حقانی ( اکوڑہ خٹک ) مفتی عبد الرحمٰن ملاخیل، عبدل خیل، خطیب ابوبکرمسجد ڈیفنس کراچی صاحبزادہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب مسند نشین خانقاہ یسین زئی پنیالہ ڈی۔ آئی۔ خان اور اس جیسے دوسرے مقامی علماء کرام جو جواز جمعہ کے قائل ہیں ان کو اس فیصلہ میں شریک نہیں کیا، بلکہ صرف ان علماء کرام کو مدعو کیا جو بظاہر عدم جواز کے  قائل تھے۔

(۲)جن مفتیان کرام کی طرف سے جواز جمعہ کے فتوے  موصول ہوئے تھے ان میں علاقے کے مفتیان کرام بھی ہیں۔ علماء کرام کو چاہیے تھا کہ ان سے معلوم کرتے، کہ انہوں نے جواز جمعہ کے فتوے کس دلیل کی بنیاد پر دیے ہیں۔

(۳)علماء کرام کا فیصلہ نہ صرف متون کی ٹھوس عبارات پر مبنی تھا بلکہ اکابر علماء دیوبند کے صریح فتاویٰ نیزمفتیان کرام کے عام رجحان کے خلاف بھی تھا۔ لیکن مولوی اقبال صاحب نے کہا ہے کہ یہ ساری کاروائی میری اجازت کے بغیر تھی وغیرہ تو کیا مذکورہ پس منظر کے پیش نظر علماء کرام کے عدم جواز کے فیصلے کو شرعی نقطہ نظر سے درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ مذکورہ نوعیت والے گاؤں کو چار ہزار آبادی کی بنیاد پر جواز جمعہ کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں فتاویٰ مفتی محمود 2/ 429، امداد الفتاویٰ 1/ 389۔ بلکہ اس سے کم نوعیت والے گاؤں کو بھی اکابر علماء دیوبند نے جواز جمعہ کا فتویٰ دیا ہے ملاحظہ فرمائیں الکوکب الدری شرح ترمذی 1/ 199، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند 5/ 148، 1/ 88، کفایت المفتی 3/ 194، 961، فتاویٰ فریدیہ 3/ 137، 160، 163، 165 وغیرہ۔

قابل قدر حضرات  علماء کرام کی اخلاص، تقویٰ اور علم  و عمل پر کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن بظاہر اکابر علماء دیوبند کے فتاویٰ کے ساتھ تعارض سا نظر آرہا تھا، اس لیے آپ سے پوچھنے کی لب کشائی کی گئی۔ واضح رہے کہ اختلاف جمعہ کا مسئلہ صرف ہمارے گاؤں کو در پیش نہیں ہے بلکہ علاقے کے دوسرے دیہاتوں میں بھی مذکورہ قسم کا اختلاف چل رہا ہے۔ اور اس پر قابو پانے کے لیے اب تک کوئی مؤثر اقدام سامنے نہیں آیا۔ اس لیے آنجناب سے بہتر رائے اور مفید مشورے کی گذارش کی جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حنفیہ کا تحقیقی قول تو وہ ہے جو امداد الاحکام اور احسن الفتاویٰ میں مذکور ہے۔ اس کے مطابق تو آپ کا گاؤں شہر یا قصبہ نہیں بنتا۔

حنفیہ کا دوسرا قول وہ ہے جو عام طور سے کفایت المفتی میں اختیار کیا گیا ہے یعنی اتنی آبادی ہو کہ جو اس بستی کی بڑی مسجدمیں نہ سما سکتی ہو۔

حنفیہ کا تیسرا قول وہ ہے جو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں بکثرت ذکر ہوا ہے یعنی یہ کہ بستی کی آبادی چار ہزار یا اس سے زیادہ ہو تو وہ قصبے کے حکم میں ہے۔

اب موجودہ حالات میں جو مسئلہ ہے وہ حنفیہ کے قول کا نہیں بلکہ اس کا ہے کہ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ علماء تو کیا عوام تک ان مسائل میں اپنی رائے رکھنے لگے ہیں۔ سختی کی جائے تو لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر حنفیہ کا کوئی قول پورا ہو رہا ہو تو جو جمعہ شروع کیا گیا ہو اس کو نہ روکیں گے۔ لہذا جو جمعہ شروع کیا گیا ہے اس کو جاری رہنے دیں۔ اس کو جاری رکھنے میں کوئی خرابی نہیں ہے اور بستی کے سب لوگ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved