• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مال تجارت میں زکوٰة کا طریقہ کار

استفتاء

ہمارا میڈیسن کی پروڈکشن کا کام ہے۔ جس کے لیے ہم باہر ممالک سے بھی چیزیں مثلاً کیمیکل وغیرہ منگواتے ہیں اور بعض چیزیں مثلاً ڈبیاں وغیرہ یہاں سے بھی لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سال پورا ہوتا ہے تو ہمارے مال کی صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ خام مال، کیمیکلز وغیرہ، ڈبیاں وغیرہ اور تیار شدہ ادویات۔ اب ہم زکوٰة کس طریقے سے ادا کریں؟

تیار شدہ مال کی قیمت کس طرح سے لگائیں۔ جس ریٹ پر ہم فروخت کرتے ہیں یا جس ریٹ پر مارکیٹ میں سیل ہوتا ہے؟ اور خام مال کے بارے میں زکوٰة کس طرح دیں۔ خام مال جہاں سے ہم لے رہے ہیں وہاں ساڑھے چھ ڈالر کا لیٹر ملتا ہے اور چائنہ سے 5 ڈالر کا ملتا ہے۔ کیا ہم اپنی مارکیٹ کا حساب دیکھیں گے یا جہاں سے کم ریٹ پر ملتا ہے وہاں کا ریٹ دیکھاجائے؟ نیز کیا خام مال کی خام مال ہونے کی حالت میں زکوٰة زکوٰة یا اس کو فنشڈ پروڈکٹ سمجھ کر لگایا جائے گا؟

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی فنشڈ پروڈکٹ کا تخمینہ ایک حساب سے لگایا اور اس حساب سے زکوٰة ادا کردی۔ مثلاً پر پیس 5 روپے۔ بعد میں جب وہ مال عملاً فروخت ہوا تو کم یا زیادہ میں ہوا تو اب دی ہوئی زکوٰة کا کیا حکم ہوگا؟ اگر کم ہوئی تو مزید دیں گے اور اگر بڑھی ہوئی ہو تو آئندہ میں شمار کرلیں یا بس جو معاملہ ہوگیا ہوگیا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ تیار شدہ ادویات میں وہ قیمت معتبر ہوگی جو زکوٰة نکالتے وقت بازار میں ان کی قیمت رائج ہے۔

و ذكر محمد رحمه الله في الرقيات أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم يعني غالب نقد ذلك البلد.( تاتارخانیه: 2/ 179)

يقوم التاجر العروض أو المبضاع التجارية في آخر كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة لا بحسب سعر شرائها. ( الفقه الاسلامی: 3/ 1871)

2۔ زکوٰة ادا کرتے وقت مال جس جگہ یا جس شہر میں موجود ہو وہاں کی مارکیٹ ریٹ کا اعتبار ہوتا ہے لہذا آپ اپنی مارکیٹ کا ریٹ دیکھیں گے۔

و يقوم في البلد الذي المال فيه. ( شامی: 2/ 286)

3۔ خام مال کی خام مال ہونے کی حالت میں زکوٰة واجب ہوگی۔

4۔ تخمیناً زکوٰة ادا کرنے کی صورت میں اگر ادا کی گئی رقم واجب مقدار سے کم ہو تو اتنی مقدار ادا کرنی ضروری ہے اور اگر واجب مقدار سے زیادہ ہوگئی تو زیادہ ادا کی گئی رقم آئندہ سال کی زکوٰة میں شمار کرسکتے ہیں۔

رجل له أربعمائة درهم فظن أن عنده خمسمائة فأدى زكاة خمسمائة ثم علم فله أن يحسب الزيادة للسنة الثانية كذا في محيط السرخسي.(عالمگیری: 1/ 176) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved