• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شلوار ٹخنوں سے نیچےکرنا

  • فتوی نمبر: 3-133
  • تاریخ: 28 مارچ 2010

استفتاء

آجکل تقریباً 90 فیصد سے زیادہ مسلمان شلوار ٹخنوں سے نیچے کر کے پھرتے ہیں۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ ان میں سے اکثر ایسا تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے، جس کی وجوہات احقر عرض کرے گا۔ چنانچہ احقر کے خیال میں آجکل ٹخنوں سے نیچے شلوار کرنا مطلقاً تکبر کی علامات میں سے رہی ہی نہیں۔ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فتوے پر نظر ثانی کریں اور اس  مجتہد فیہ مسئلہ میں لوگوں کو جہنم کی وعید کا مستحق ہونے سے بچائیں؟

جبکہ امام  نووی رحمہ اللہ "خیلاء” والی قید کا اعتبار کرتے ہیں اور مطلقاً اسبال ازار کو وعید جہنم کا سبب نہیں ٹھہراتے بلکہ مکروہ تنزیہی کہتے ہیں، اور وہ بھی اس صورت میں جب کپڑا زمین پر گھسٹ رہا ہو۔ اور اس کی دلیل حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا فتح الباری میں یہ کہنا  ہے کہ کپڑا نیچے کرنے سے نجاست لگتی ہو، ورنہ اکثر ایسا نہیں ہوتا چنانچہ اسے وعید کے استحقاق کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ وعید کا استحقاق تکبر کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ حافظ ابن حجر یہ بھی فرماتےہیں کہ قمیص کو حد سے زیادہ لٹکانے پر بھی یہ وعید صادق آئے گی، جیسے "من جر ثوبه " والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ تو آخر ہم ازار والی حدیث ہی پر کیوں زور دیتے ہیں؟

بہر حال اگر امام نووی اور ان کے  مؤیدین کے قول پر فتویٰ دے دیا جائے تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا؟ جبکہ ضرورت شدیدہ بھی ہے یعنی اکثر مسلمانوں کو ایک اختلافی مسئلے میں جہنم کی وعید کا مستحق ہونے سے بچانا، جیسا کہ بہت سی مساجد میں جمعتہ المبارک کی اذان اول کو موخر کر کے کیا گیا۔ اورا مام  نووی کا یہ نظریہ آج سے سینکڑوں سال پہلے کا ہے جبکہ آج تو عرف بھی کافی کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ گویا کہ آج کے عرف کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قول پر عمل کرنے کی زیادہ گنجائش ہے بنسبت اس وقت کے عرف ہے۔

دیکھئے: جتنی بھی وعیدات آئی ہیں وہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر آئی ہیں اور ان کو عقل سلیم بھی برا سمجھتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

وعید                                               سبب

1۔ پیٹ میں انگارے بھر نا                 یتیم کا مال ظلماً کھانا

2۔نمازیوں کے لیے ہلاکت               نماز میں سستی کرنا

3۔ جہنم کے نچلے طبقے میں جانا               منافقت

4۔ ظلم عظم کا مرتکب ہونا                 اشراک باللہ

اور بھی بہت سی وعیدات صرف اور صرف کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر آئی ہیں۔ اب جہنم کی وعید اس وجہ سے کہ تکبر کی وجہ سے  اسبال ازار کیا، سمجھ میں آتی ہے، مگر مطلقاً اسبال ازار کو سبب بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اور اگر اسبال کو تکبر کی منضبط علامت کہا جائے تو بھی یہ  ایسے ماحول میں تو کہا جاسکتا ہے جہاں عمومی رواج ایسا ہو، لیکن مستثنیات کو لیکر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔ نیند آج بھی نقض وضو کی علامت ہے، سفر میں آج بھی کچھ  نہ کچھ جسمانی یا ذہنی مشقت موجود ہے، چنانچہ انکو آج بھی علامات کے طور پر برقرار رکھا جائے گا۔ لیکن اسبال ازار کی علامت ہونے کی وہ حیثیت اب باقی نہیں رہی جو ابتداء اسلام میں تھی، تبھی فقہاءکا اس بارے میں اختلاف بھی سامنے آیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بعض دفعہ مطلقاً وعید بیان کیوں فرمائی؟ تو اس کی وجہ زجر و توبیخ بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث” من ترك الصلاة متعمداً فقد كفر” میں ہے۔ کیونکہ اکثر لوگ ایسا تکبر کی وجہ  سے کرتے تھے، اس لیے سد الذرائع ایسا فرمایا۔ لیکن آجکل کا اسبال جب مطلقا تکبر کا سبب ہی نہیں رہا تو ” خیلاء” والی قید کو معتبر ماننا ہوگا۔

اس کے علاوہ عورتوں سے مشابہت بھی مطلقاً منع کا سبب نہیں بن سکتا،اس لیے کہ آج اگر کوئی چٹیا رکھ لے تو وہ عورتوں سے مشابہت کہلائے گی لیکن اسبال ازار ہرگز نہیں۔ احقر کے خیال میں آپ ﷺ کے زمانے میں اکثر لوگ ایسا تکبر کی وجہ سے  کرتے تھے۔ ( جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اسے تسلیم کیا  ہے۔ امداد الفتاویٰ، 4/ 122) اس لیے آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور خود بھی عمل کر کے  دکھایا۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے مطلق کو مقید پر محمول نہ کرنے کی دلیل میں نور الانوار کی مندرجہ ذیل عبارت پیس کی ہے:

” وأما إذا وردا ( أي المطلق والمقيد ) في الأسباب أو الشروط فلا مضايقة و لا تضاد فيمكن أن يكون المطلق سبباً بإطلاقه و المقيد سبباً بتقييده”.( امداد الفتاویٰ، احکام متعلقہ لباس، 4/ 122 )

اس عبارت میں صاحب نور الانوار نے  "یمکن” کا لفظ استعمال کیا ہے، یجب” کا نہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک دو اسباب کو جمع کرنا ممکن تو ہوا مگر ضروری نہیں ہوا۔ لہذا ہم اگر عامتہ الناس کا خیال کرتے ہوئے مطلق کو مقید پر محمول کر لیں تو مناسب ہوگا۔ اور پھر حضرت تھانوی رحمہ اللہ خود فرمارہے ہیں کہ اکثر لوگ اس وقت ایسا تکبر کی وجہ سے کر تے تھے،  اس لیے ” خیلاء” کی قید لگائی۔ اگر چہ یہ بات انہوں نے اپنی دلیل کے طور پر فرمائی ہے لیکن یہ  ہماری دلیل بھی بن سکتی ہے کہ کیونکہ آجکل اکثر لوگ ایسا تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے اس لیے ” خیلاء” کی قید کا اعتبار  کرنا ہوگا۔

علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ بیع قبل القبض کے عدم جواز کو ضرورت کی بنیاد پر احناف کے ہاں بھی مطعومات کے ساتھ خاص کرنے کو جائز  کہا گیا ہے اور اس مسئلے میں مذہب مالکی پر فتویٰ دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ جبکہ حدیث میں بھی صراحتا الطعام ہی کا ذکر ہے۔ جس پر احناف اور شوافع نے قیاس کر کے بقیہ چیزوں کو بھی منع کردیا ہے۔

(بنوری،  محمد یوسف، بینات، فکر و نظر،5 ،مکتبہ بینات، کراچی، ربیع الثانی 1383ھ/1962ء)

حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

” من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه”

جس شخص نے کھانے کی کوئی چیز خریدی تو اسے نہ بیچے حتے کہ اس پر قبضہ کرلے۔(عبدا لرزاق، ابوبکر، المصنف، کتاب البیوع، باب النہی عن بیع الطعام حتی یستوفی، 8/ 38)

اس حدیث کے تحت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :

"فأحسب كل شيء بمنزلة الطعام” میں ہر چیز کو کھانے کی چیز کے قائم مقام ہی سمجھتا ہوں (ایضا )

اسی طرح آپ ﷺ نے حکیم بن حزام سے فرمایا:

” لا تبع ما ليس عندك” جو چیز تیرے  پاس نہیں، اسے نہ بیچ (ایضا)

اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیع قبل القبض ہر چیز میں ناجائز ہے۔ لیکن کیونکہ طعام کا لفظ بھی حدیث میں آگیا ہے اس لیے  اس حدیث کو ضرورت کی وجہ سے طعام ہی کے ساتھ خاص کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح  حدیث” من جر إزاره خيلاء…” میں بھی ضرورت کی وجہ سے مطلق کو مقید پر محمول کرلینا درست ہونا چاہیے، جبکہ اس کی ضرورت بھی موجود ہے۔

احقر کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ آجکل کلف شدہ کپڑا پہننے میں تکبر کا زیادہ اندیشہ ہے اور ایسے کپڑے پہن کر پائینچے نیچے کرنے کی نسبت زیادہ اکڑ پیدا  ہوتی ہے۔ جیسا کہ  مشاہدہ ہے تو اس کی نفی پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا؟ حالانکہ اصولی طور پر اسے بھی ذریعہ تکبر مان کر اس سے روکنا چاہیے۔ بغض، حسد اور کینہ بھی تو دل کی بیماریاں ہیں، لیکن آپ ﷺ نے ان کی ظاہری علامات کیوں نہ بتلائیں؟ جو ہمیشہ کے لیے ہوتیں  اور جن سے پتہ چلتا کہ یہ شخص حاسد  یا کینہ ور ہے۔

باقی یہ کہنا کہ کوئی شخص اعتراف نہیں کرتا کہ وہ متکبر ہے، مناسب نہیں۔ اس لیے کہ احقر کے خیال میں اس کا تعلق اعتراف سے نہیں  بلکہ احساس و مشاہدہ سے ہے۔ اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے تکبر کی وجہ سے اسبال کیا یا کلف شدہ کپڑا پہنا تو اپنی نیت کو فوراً درست کرے۔ جیسا کہ  عام زیب و زینت میں بھی نمائش وغیرہ سے روکنے کے لیے یہی حکم ہے۔ یا پھر لوگ مشاہدہ کریں کہ اس شخص میں تکبر پیدا ہورہا ہے، خواہ کسی بھی وجہ سے، تو وہ اسے متنبہ کریں۔

اور جتنی مقدار اور جس نیت سے آجکل پائینچے نیچے کئے جاتے ہیں اسے تکبر کی منضبط علامت قرار دینا احقر کے خیال میں درست نہیں۔ باقی رہی سفر کی بات تو اس میں آج بھی مشقت ہے،خواہ جہاز ہی کا کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ حضر کے مقابلے میں ہے اور حضر میں بہر حال آرام زیادہ ہے۔ لہذا سفر کو مشقت کے منضبط علامت قرار دینا درست ہے نہ کہ اسبال ازار کو۔ اور وہ بھی ایسا اسبال جو جوتے کے اوپر رہتا ہے تاکہ مثلاً جوتا برانہ لگے، نہ کہ وہ  اسبال زمین  پر گھسٹتا ہے۔

عرف سے صرف نظر کسی بھی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ فقہاء  نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اگر کسی علاقے یا خطے میں ” اف” کہنا احترام کی علامت ہو تو وہاں ایسا کہنے سے قرآن کے حکم”فلا تقل لهما أف ” کی خلاف ورزی لازم نہیں آئے گی۔ اب فرض کیا کہ کسی خطے میں شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا عاجزی کی علامت ، اور اوپر کرنا تکبر کی علامت شمار ہوتا ہو تو وہاں پر یقیناً شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنے کا ہی حکم جاری  کیا جائے گا۔ بالکل ایسے ہی اگر آج ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ کرنے کی مروجہ صورت تکبر کی علامت نہ رہے تو اس پر بھی تکبر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی اس کا تضاد ان زمانوں سے ہے کہ جب تکبر سے بچنے کے لیے ایسا کیا جاتا تھا۔

اگر آپ کہتے ہیں کہ اسبال ازار میں تیقن نہیں تو مظنہ تکبر تو ہے، جس بچنے ک تلقین "الحلال بين والحرام بين …” والی حدیث سے ثابت ہے لہذا اس سےبچنا چاہیے۔ احقر عرض کرتا ہے کہ کلف شدہ کپڑا میں زیادہ مظنہ ہے، لہذا اس سے بھی بچنا چاہیے حالانکہ اس  سے کوئی بھی روکتا نظر نہیں آتا۔ اور اگر مظنہ تکبر تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی  اسبال ازار کا مکروہ تنزیہی ہونا لازم آئے گا نہ کہ حرام ہونا۔ احقر نے  اس بارے میں بارہا فتح الباری، امداد الفتاویٰ، تقریر ترمذی وغیرہ سے مراجعت کی مگر اشکالات دور نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ جامعتہ الرشید سے بھی استفتاء کیا لیکن مذکورہ مسئلہ پر شرح صدر نہ ہو سکا۔ براہ مہربانی طرفین کے دلائل کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کر کے جواب مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دو باتیں قابل غور ہیں:

1۔ رسول اللہ ﷺاور صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہمیشہ اس کا اہتمام کیا کہ ازار ٹخنوں سےاونچے بلکہ نصف پنڈلی تک رہے۔

عن عكرمة قال رأيت ابن عباس يأتزر فيضع حاشية إزاره من  مقدمه على ظهر قدمه و يرفع من مؤخره قلت لم تأتزر هذه الازرة قال رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يأتزرها.( أبو داؤد. مشكوة، 377)

عن ابن عمر قال مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم و في إزاري استرخاء فقال يا عبدالله ارفع إزارك فرفعته ثم قال زد فزدت فما زالت اتحراها بعد فقال بعض القوم إلى اين قال إلى انصاف الساقين. (مسلم۔ مشکوٰة 376)

2۔ ایک ہے جر ازار یا جر ثوب اس کا مطلب ہے کہ آدمی چلتے ہوئے اپنے کپڑے زمین پر گھسیٹے جیسے خاص موقعوں پر بادشاہ اور ملکائیں کرتی تھیں اور اب بھی کرتےہیں۔

دوسر ی چیز ہے اسبال ازار یعنی ازار کو یا پائینچوں کو ٹخنوں سے نیچا رکھنا۔ جر ازار جو عمداً ہو وہ تو ہوتا ہی تکبر سے ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے  کہ کسی کا جرازار کرنا مقصود نہ ہو لیکن بے دھیانی میں کچھ ہوجائے۔ اس کو حدیث میں یوں بیان کیا:

عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال من جر  ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة فقال أبو بكر يا رسول الله إزاري يسترخي إلا أن أتعاهده فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم إنك لست ممن يفعله خيلاء. (بخاری۔ مشکوٰة 376 )

اسبال ازار کو جر ثوب یا جر ازار لازم نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ  رسول اللہ ﷺ نے جہاں جر ازار سے منع فرمایا وہیں اسبال ازار سے بھی منع فرمایا۔ اگرچہ دونوں کی شدت میں فرق ہے۔ جر ازار خیلاء کی سزا زیادہ ہے۔ اس بات کو حدیث میں یوں واضح کیا گیا ہے:

عن أبي سعيد الخدري قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ازرة المؤمن إلى انصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه و بين الكعبين و ما أسفل من ذلك ففي النار قال ذلك ثلاث مرات و لا ينظر إليه يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا. ( أبو داؤد. مشکوٰة، 374 )

اس حدیث میں بتایا کی ٹخنوں سے اوپر گناہ نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے کرنے میں گناہ ہے اس لیے تین مرتبہ فرمایا ” ما أسفل من ذلك ففي النار”۔ پھر اس کے بعد ایک اور درجہ ہے یعنی جر ازار کا یعنی ازار کو زمین پر گھسیٹنےکا کہ یہ تو متکبرین کا شیوہ ہے اوران پر تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت بھی نہ ڈالیں گے۔

اس طرح نماز میں آدمی ایک جگہ ہی ہوتا ہے اس لیے جر ازار یا جر ثوب نہیں ہوسکتا لیکن اسبال ازار ہو سکتا ہے۔ اور اسبال ازار کی حالت میں نماز کا ثواب نہیں ہوتا:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال بينما رجل يصلي مسبلاً إزاره إذ قال له رسول الله صلى الله عليه و سلم اذهب فتوضأ فذهب فتوضأ ثم جاء ثم قال اذهب فتوضأ و ذهب فتوضأ ثم جاء فقال له رجل يا رسول الله مالك امرته أن يتوضأ قال أنه كان يصلي و هومسبل إزاره و أن الله جل ذكره لا يقبل صلوة رجل مسبل إزاره. (ابوداؤد،1/ 100 )

امید ہے کہ  اس تفصیل سے بات واضح اور قابل فہم ہوگئی ہوگی کہ اسبال ازار اپنی جگہ مکروہ تحریمی ہے  محض خلاف اولی اور مکروہ تنزیہی نہیں۔ آخر امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہوتا ہے اور اسبال میں وعید بھی مذکور ہے اور نماز بھی قبول نہیں ہوتی ۔ یہ سب ا مور کراہت کے  تحریمی ہونے پر دلیل ہیں۔  و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved