- فتوی نمبر: 5-347
- تاریخ: 13 مارچ 2014
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ہمارا ایک رفاہی ادارہ ہے جو علمائے کرام کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے اور جس کی رفاہی خدمات مختلف انواع کی ہیں,مثلا سیلاب زدگان ،زلزلہ زدگان ،اور یتیموں اور بیواوں کی امداد وغیرہ۔ لوگ مختلف مدات میں مثلاً زکوٰة، صدقات واجبہ و نافلہ، قربانی کی کھالیں و دیگر عطیات میں رقوم وغیرہ دیتے ہیں یہ چیزیں کچھ لوگ براہ راست دیتے ہیں اور کچھ لوگ ملک و بیرون ملک سے بنک کے ذریعے ادارے کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتے ہیں۔ادارہ زکوٰة و صدقات واجبہ کی رقوم یا ان سے خریدی ہوئی اشیاء علمائے کرام کی نگرانی میں تحقیق کر کے ان کے مخصوص مصارف (مستحقین زکوٰة ) ہی میں صرف کرتا ہے ۔جمع ہونے والی رقوم کو ادارہ جمع ہوتے ہی مستحقین پر خرچ کر دے یہ عام طور سے ممکن نہیں اس لیےبسا اوقات یہ رقوم چھ چھ مہینے تک آگے خرچ نہیں ہوپاتیں۔
ایک صاحب علم نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ آپ حضرات چونکہ صرف فنڈز دینے والوں کے وکیل ہیں اس لیےیہ رقوم و دیگر اشیاء خواہ وہ زکوٰة و صدقات واجبہ کی قبیل سے ہوں یا عام عطیات ہوں جب تک آپ کے قبضے میں ہیں اور مستحق تک نہیں پہنچی اس وقت تک وہ رقوم بدستور دینے والوں ہی کی ملک ہیں اور ان کی ملک سے نہیں نکلی، اس لیے اگر اس دوران (یعنی رقم کے مستحق تک پہنچنے سے پہلے ) فنڈز دینے والے کا انتقال ہو گیا تویہ رقم ورثاء کو واپس کرنا یا ان کی اجازت سے (بشرطیکہ سب بالغ ہوں ) استعمال کرنا ضروری ہے۔
ان صاحب علم کی یہ بات سن کر ہمیں کافی تشویش ہوئی کیونکہ ہم تو کافی عرصے سے اس طرح کام کر رہے ہیں اور اکثر اوقات فنڈز دینے والوں کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ جس کی وجہ سے ہم رقم خرچ ہونے تک ان کے انتقال کے بارے میں معلومات رکھیں اور اگر علم ہو بھی جائے تواس کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ ان کی رقوم آپس میں مخلوط ہوتی ہیں ان کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کا نہ کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ایسا انتظام ہمارے لیے ممکن ہے اس لیے ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ باقی ماندہ رقم کس صاحب کی ہے اور جو خرچ ہوچکی وہ کس کی تھی اس لیے اگر واپس کی جائے تو کس کو اور اجازت لی جائے تو کس سے؟بہر حال اس پریشانی کا ذکر ہم نے اپنے سرپرست اہل علم حضرات سے کیا تو انہوں نے ہمارے سامنے اس کے حل کے لیے مختلف آراء پیش کیں۔
پہلی رائے:
ایک صاحب علم نے یہ رائے دی کہ آپ کچھ مستحقین سے وکالت نامہ لے لیں جس میں وہ آپ کو لوگوں (معطیین) سے زکوٰة و صدقات وغیرہ لینے اور رفاہی ادارے میں عطیہ کرنے کا وکیل بنا دیں تاکہ فنڈ دیتے ہی مال معطی کی ملک سے نکل جائے اور معطی کے مرنے تک مصرف میں خرچ نہ ہوسکا ہو تو ورثاء کی طرف لوٹانے کی یا ان سے اجازت کی ضرورت نہ رہے۔
اس رائے پر عمل کرنے میں چند اشکالات ہیں
اشکال نمبر 1:
اس رائے کو اختیار کرنے میں ہمارے لیے یہ عملی دشواری ہے کہ ہماری دسترس میں ہر وقت ایسے مستحق افراد نہیں رہتے جن سے ہم یہ وکالت نامہ لے لیں۔
اشکال نمبر 2:
اس رائے پر ایک صاحب علم نے یہ اشکال بھی کیا کہ یہ تو ایک نرا حیلہ ہے جس کا دینی مدرسےمیں ابقائے دین کے مقصد کی خاطر تو کسی درجے میں تحمل کیا جاسکتا ہے لیکن عام رفاہی ادارے میں اس طرح کے حیلوں کی گنجائش نہیں کیونکہ عرف و عادت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ چند مستحق اشخاص لاکھوں کروڑوں روپوں کے مالک ہو کر اتنے ہی روپے بطیب خاطر کسی رفاہی ادارے کو عطیہ کر رہے ہوں۔
دوسری رائے:
دوسرے صاحب علم نے یہ رائے دی کہ ہر فنڈ دینے والے سے یہ وصیت لکھوالی جائے یا وصیت نامہ چھپوا کر دستخط لے لیے جائیں کہ اگر میری وفات تک یہ رقم مستحق تک نہ پہنچ پائی تو یہ رقم میری طرف سے اس رفاہی ادارے کو بطور وصیت کے عطیہ کر دی جائے۔
اشکال:
اس رائے پر کسی نے علمی اشکال نہیں کیا البتہ اس رائے پرعمل کرنے میں بھی یہ دشواری ہے کہ بہت سے فنڈز دینے والے ایسے حضرات ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں یعنی عملاً ان سب سے وصیت کروانا ممکن نہیں ہے۔
تیسری رائے:
تیسرے صاحب علم نے یہ رائے دی کہ رفاہی ادارے کا ناظم عامل صدقہ یا ناظم بیت االمال کی طرح عرف وضرورت کی وجہ سے مستحقین اور معطیین،دونوں کا وکیل ہے ۔ جیسا کہ مہتمم مدرسہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ اور حضرت سہارن پوری رحمہ اللہ کے فتووں کے مطابق عاملین صدقہ کی طرح مستحقین اور معطیین دونوں کا وکیل ہے(جن کی تفصیل فتاویٰ خلیلیہ ص: 396 اور امداد المفتین: 883 تا 896 پر ہے) لہذا مال ناظم کے قبضے میں آتے ہی معطی کی ملک سے نکل جائے گا اور مستحقین کی ملک میں داخل ہوجائے گا اور معطی کے مرنے کی صور ت میں اس کے ورثاء کو لوٹانے کی یا ان سے اجازت کی ضرورت نہیں رہے گی ۔اگرچہ اس کا استعمال اس کے مصارف ہی میں کیا جائے گا۔
اشکال:
اس رائے کو اختیار کرنے میں ادارے کو عملی دشواری تو کوئی پیش نہیں آتی۔ البتہ اس رائے پر بھی ایک صاحب علم نے یہ اشکال کیا کہ دینی مدارس کا قیام چونکہ ابقائے دین کے لیے کیا گیا ہے اس لیے مہتمم مدرسہ کو تو عامل صدقہ یا ناظم بیت المال پر قیاس کیا جاسکتا ہے لیکن یہ علت ( یعنی ابقائے دین ) رفاہی اداروں کے قیام میں موجود نہیں اس لیے رفاہی ادارے کے ناظم کو عامل صدقہ یا ناظم بیت المال پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
جواب:
اس اشکا ل کا جواب تیسری رائے والے صاحب علم نے یہ دیا ہے کہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے فتوے میں تومہتمم كوطلبہ کا نائب قرار دینے کی ا س علت کا ذکر ہی نہیں ۔ حضرت گنگوہیؒ کا فتوی درج ذیل ہے:
"مدر سہ کا مہتمم قیم ونائب جملہ طلبہ کا ہوتا ہے جیسا کہ امیر نائب جملہ عالم کا ہوتا ہے۔پس جو شئے کسی نے مہتمم کو دی تو مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے ۔اس کے قبضہ سے ملک معطی سے نکلا اور ملک طلبہ کا ہوگیا۔اگرچہ وہ مجہو ل الکمیت والذوات ہوں مگر نائب معین ہے ۔پس بعد موت معطی کے ملک ورثہ معطی کی اس میں نہیں ہوسکتی، اورمہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتاہے۔بہر حال ،یہ نہ تو وقف مال ہے اور نہ ملک ورثہ معطی کی ہوگی اور نہ خود معطی کی ملک ہے”۔(بر حاشیہ فتاوی خلیلیہ:ص ۳۹۴،مطبوعہ مکتبہ الشیخ )
البتہ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی امداد المفتیین میں ذکر کردہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت گنگوہی ؒ کے فتوے میںمہتمم کو طلبہ کا وکیل قرار دینے کی وجہ عرف ہے۔وہ عبارت یہ ہے:
"اگرچہ طلبا ،فقراء مجہول الکمیت والذوات ہیں ،اس کے باوجود ان کی وکالت مہتممان مدرسہ کےلیے عرفی طور پر ثابت ہو گئی اور ان کا قبضہ فقراء کا قبضہ ہوگیا۔”(ج۲ ص ،۸۹۶)
اور عرف میں جس طرح مهتمم مدرسہ کو طلبہ کا وکیل سمجھ کر چندہ دیا جاتا ہے اسی طرح عرف میں رفاہی اداروں کے ناظمین کو بھی مستحقین کا نمائندہ سمجھ کر چندہ دیا جاتاہے۔
اور حضر ت سہارنپوری رحمہ اللہ کے فتوے میں اگرچہ اس علت یعنی ابقائے دین کا تذکرہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس ادارے کا قیام ابقائے دین کے علاوہ کسی رفاہی خدمت کی غرض سے کیا گیا ہو تو اس کے ناظم کو فقراء کا وکیل قرار نہیں دے سکتے بلکہ اس کامطلب صرف اتنا ہے کہ جس ادارے کا قیام ابقائے دین کے لیے کیا گیا ہو(مثلادینی مدرسہ)تو اس کے ناظم کو بدرجہ اولی بمنزلہ عامل صدقہ کے فقراءکا و کیل قراردیاجاسکتاہے۔جیسا کہ حضرت سہارنپوری ؒکے درج ذیل فتوے سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
"بندہ کے خیال میں سلطان میں دو وصف ہیں ایک حکومت جس کا ثمرہ تنفیذ حدود و قصاص، دوسرا انتظام حقوق عامہ۔ امر اول میں کوئی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ہے۔ امر ثانی(یعنی انتظام حقوق عامہ۔ناقل) میں اہل حل و عقد بوقت ضرورت قائم مقام ہوسکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی رائے و مشورہ کے ساتھ نصب سلطان وابستہ ہے جو باب انتظام سے ہے لہذا مالی انتظام مدارس جو برضائے ملاک و طلبہ ابقائے دین کے لیے کیا گیا ہے بالاولیٰ معتبر ہوگا”۔(فتاویٰ خلیلیہ:396)
اورمعاشرے میں رفاہی اداروں کی ضرورت اور ان کی طرف سے حقوق عامہ کا انتظام کرنا محتاج بیان نہیں۔
مذکورہ بالا تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے دریافت طلب امر یہ ہے کہ
کیا اس آخری رائے کے مطابق رفاہی ادارے کے منتظم کو مدرسے کےمہتمماور بیت المال کے ناظم پر صرف اس حد تک قیاس کیا جاسکتا ہے کہ قبل از خرچ معطی کا انتقال ہوجائے تو ورثاء کو واپسی یا ان سے اجازت کی ضرورت نہ رہے۔لیکن اس مال کا استعمال علمائے کرام کی رہنمائی میں اس کے مصارف ہی میں کیا جائے۔کیونکہ عملی لحاظ سے یہی رائے ادارے کے لیے کار آمد ہوسکتی ہے۔ باقی رایوں پر عمل کرنے میں جوعلمی اور عملی دشواریاں ہیں وہ بیان ہو ہی چکی ہیں۔
اور اگر آپ کی رائے کے مطابق رفاہی ادارے کے ناظم کومہتممو ناظم بیت المال پر قیاس نہیں کیا جاسکتا تو اس کی وجوہات بھی کچھ تفصیل سے لکھ دی جائیں تو عین نوازش ہوگی تاکہ جس صاحب علم کی یہ رائے ہے ان کے سامنے یہ وجوہات ذکر کی جاسکیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے یہ بات لکھی ’’ مہتمم نائب ہے جملہ طلبہ کا ‘‘اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب:
(i) حضرت مفتی شفیع رحمہ اللہ نے یہ دیا کہ اس کا عرف ہے جبکہ
(ii) حضرت خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا کہ ضرورت ( ومجبوری) کے وقت اہل حل و عقد امیر کے قائم مقام ہوسکتے ہیں۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی توجیہ تسلی بخش نہیں کیونکہ اول تو ان کے زمانے تک طلبہ کے نائب ہونے کا تصور یا تو مغلوب تھا یا معدوم تھا۔ دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ مہتمم طلبہ کے بہت سے امور کا نگران اور کارساز ہوتا ہے اس لیے اس کو طلبہ کا نائب کہا جائے۔ اگر اس بات کو تسلیم کریں تو پھر یہ بات تو ہر اس جگہ چلے گی جہاں کوئی دوسرے کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہوں مثلاً سکول و کالج اور کسی مہتمم کے سرپرست اور لڑکوں اور لڑکیوں کے دستکاری کے سکول وغیرہ۔
مولانا خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ نے طلبہ کی وکالت کو ضرورت و مجبوری کے تحت ذکر کیا ہے۔ ضرورت و مجبوری ابقائے دین میں تو ہے ہسپتال یا کسی اور رفاہی ادارے میں نہیں کیونکہ یہ امور بذات خود ضروری نہیں کیونکہ مریض پر یہ واجب نہیں کہ وہ اپنا علاج کروائے یا کرے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی توجیہ کا یہ تیسرا جواب بھی بن جاتا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved