- فتوی نمبر: 17-120
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب مفتیان کرام کی خدمت میں کچھ سوالات کے جوابات مدلل اور محقق مطلوب ہیں امید ہے کہ سائل کے مدعی کی رعایت رکھ کر حضرات شکریہ کا موقع دیں گے۔
پراپرٹی کی خرید و فروخت میں آجکل کی مروجہ صورتوں میں سے ایک صورت جو زیادہ رائج ہے وہ یہ ہے کہ پراپرٹی کی خرید وفروخت تین مراحل میں ہوتی ہے سب سے پہلے مشتری ٹوکن منی ادا کرتا ہے اس کے بعد بیعانہ دیا جاتا ہے اور اس کے کچھ عرصہ بعد مکمل ادائیگی ہوتی ہے اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں:
1- ٹوکن منی اور بیعانہ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کی فقہی تکییف کیا ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ٹوکن منی دو طرح کا ہوتا ہے (1) کنڈیشنل (2) کنفرم۔ پہلی قسم کے ٹوکن منی کی شرعی حیثیت امانت کی ہے اور دوسراقسم کے ٹوکن منی اور بیعانہ کی شرعی حیثیت ثمن (پیمنٹ)کے ایک جزوی حصے کی ہے۔
وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية او ضمان الجدية (وان لم يكن ضمانا بالمعني الفقهي ) فهذه الدفعات ليست عربونا وانما امانة بيد البائع (فقه البيوع: 1/119)
وقال ابن قدامة والعربون في البيع هو ان يشتري السلعة فيدفع الي البائع درهما او غيره علي انه ان اخذ السلعة احتسب به من الثمن وان لم ياخذها فذلك للبائع ويتبين من تعريف بيع العربون انه بيع يثبت فيه الخيار للمشتري فاذا امضي البيع اعتبر مبلغ العربون جزءا من الثمن…(فقه البيوع 114\1)
2-اگر مشتری بیع کو کسی بھی وجہ سے کسی بھی مرحلے میں قائم نہیں کرتا تو اس کی ادا کی ہوئی ٹوکن منی اور بیعانہ کوبائع ضبط کرلیتا ہے اور اگر بائع کسی وجہ سے بیع کو معاہدہ کے مطابق پورا نہیں کرتا تو ایسی صورت میں ٹوکن منی اور بیعانہ کا دو گنا مشتری کو ادا کرتا ہے کیا جانبین سے ٹوکن منی اور بیعانہ کا یہ ضبط کرنا جائز ہے ؟جبکہ پہلے سے دونوں کو معلوم ہے اور دونوں راضی بھی ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ٹوکن منی یا بیعانہ کوضبط کرناجائز نہیں ہے ،فریقین میں سے کوئی فریق اگر معاہدے کو پورا کرنے سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس صورت میں حقیقی نقصان کی تلافی کرائی جاسکتی ہے اس سے زیادہ کی نہیں ۔
واختلف الفقهاء في جواز العربون فقال الحنفية والمالكية والشافعية وابو الخطاب من الحنابلة انه غير جائز(فقه البيوع ۱۱٤/۱)
۱۔ٹوکن منی ، بیعانہ اور مکمل ادائیگی میں سے کون سے مرحلے پر شرعابیع منعقدہوگی ؟رہنمائی فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ٹوکن منی کنڈیشنل ہو تو اس صورت میں بیع منعقد نہیں ہوتی اور کنفرم ہو یا بیعانہ ہو تو بیع منعقد ہو جاتی ہے۔
ويتبين من تعريف بيع العربون انه بيع يثبت فيه الخيار للمشتري فاذا امضي البيع اعتبر مبلغ العربون جزءا من الثمن…(فقه البيوع 114\1)
وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية او ضمان الجدية (وان لم يكن ضمانا بالمعني الفقهي ) فهذه الدفعات ليست عربونا وانما امانة بيد البائع (فقه البيوع: 1/119)
۱۔آجکل معاشرے میں جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کی کثرت اور معاملات میں دینی امور کی پامالی کا حال سب کو معلوم ہے اور طرح طرح کے دھوکے فراڈ، دجل فریب ،دولت کی حرص و ہوس اور لالچ کی بنیاد پر لوگ طے شدہ معاملات کو چند پیسوں کی خاطر پورا نہیں کرتے اور دوسروں کا نقصان کر دیتے ہیں (سوال کے تقاضہ اختصار کے پیش نظر ان امور کو ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا، امید ہے کہ آپ کے علم میں تمام امور ہونگے) کیا ان حالات میں ٹوکن منی اور بیعانہ کے ضبط کا فتوی (جبکہ بیعانہ کے ضبط کے جواز کے حنابلہ قائل بھی ہیں) دیا جاسکتا ہے اور ضرورت کے پیش نظر یہ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے؟ اگر جواب نہیں ہے تو معاشرے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا ہمارے پاس کیا حل ہے؟ کیا صرف نقصان کی تلافی کی حد تک دوسرے فریق کو نقصان دلوایا جاسکتا ہے؟ مدلل جواب درکار ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حالات میں بھی ٹوکن منی یا بیعانہ کوضبط کرنےکا فتوی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ تعزیر مالی کی صورت ہے جس کے عدم جواز پر تقریبا تمام فقہاء متفق ہیں البتہ اس کے دو حل ہیں :
۱-ٹوکن منی یا بیعانہ وقتی طور پر ضبط کرلیا جائے ۔اور پھر خواہ بغیر بتائے کسی بھی نام سے تھوڑا تھوڑا کرکے واپس کردیا جائے تاکہ فریقین ٹوکن منی یا بیعانہ کےضبط ہونےکے خوف سے سودا توڑنے (کینسل کرنے) سے باز رہیں۔
۲۔صرف حقیقی نقصان کی حد تک دوسرے فریق سے تلافی کروائی جائے۔حنابلہ اگر چہ بیعانہ کے ضبط ہونے کے قائل ہیں تاہم ایک تو ان کاقول جمہور فقہاء کےخلاف ہے اور دوسرے اس قول میں صرف بائع (بیچنےوالے)کے لیے تو حل ہےلیکن مشتری(خریدنے والے)کے لیے حل نہیں،اس لیے اس قول پرفتوی دینے کی ضرورت نہیں،بالخصوص جبکہ فریقین کےحقیقی نقصان کی تلافی اس قول پرفتوے کےبغیربھی کروائی جاسکتی ہے۔
واختلف الفقهاء في جواز العربون فقال الحنفية والمالكية والشافعية وابو الخطاب من الحنابلة انه غير جائز(فقه البيوع ۱۱٤/۱)
لا يجوز ان يحمل المتخلف عن الوعد تعويضا الا بمقدار الخسارة الفعلية التي اصيب به الطرف الآخر مثل ان يضطر البائع الي بيع المبيع باقل من سعر تكلفته (فقه البيوع 113\1)
لا يجوز التعزير بأخذ المال في الراجح عند الأئمة لما فيه تسليط الظلمة على أخذ مال الناس، فيأكلونه.(فقه الاسلامي وادلته 7/518)
۱۔ہمارے عرف میں رائج بیعانہ کے لین دین کا جو طریقہ رائج ہے قطع نظر بیعانہ کے ضبط سے کیا یہ وہی بیعانہ ہے جس کو فقہائے کرام عربون سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کے جواز کے حنابلہ قائل ہیں یا فقہائے کرام کے عربون اور موجودہ بیعانہ میں فرق ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بیعانہ اور عربون ایک ہی چیز ہیں۔
(اسلام اور جدید معاشی مسائل 158/4)
بیع العربون یا بیعانہ :بیع العربان اس بیع کو کہتے ہیں جس میں مشتری بیعانہ کے طور پر کچھ رقم بائع کو دیتا
ہے اور اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ دیکھو میں یہ پیسے دے رہا ہوں اور ساتھ میں اپنے لیے خیار لیتا ہوں کہ چاہوں تو اس بیع کو قائم رکھوں اور چاہوں تو اس بیع کو فسخ کردوں۔اگر بیع کو قائم رکھا اور نافذ کردیا تب تو یہ رقم جس کو عربون یابیعانہ کی رقم کہتے ہیں جزو ثمن بن جائے گی۔
۱۔جدید فقہی کتب میں ہامش الجدیہ کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اور کیا یہ متقدمین فقہا کے ہاں بھی معروف اصطلاح ہے ؟اگر نہیں تو یہ اصطلاح کب سے استعمال ہونا شروع ہوئی؟ اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو ٹوکن منی کنڈیشنل ہو اسے ہامش الجدیۃ کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح پہلے نہیں تھی ،جدید فقہی معاملات میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔یہ اصطلاح کب سے استعمال ہونا شروع ہوئی، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، اس کی شرعی حیثیت کنڈیشنل ٹوکن منی میں بیان کر دی گئی ہے۔
وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية او ضمان الجدية (وان لم يكن ضمانا بالمعني الفقهي ) فهذه الدفعات ليست عربونا وانما امانة بيد البائع (فقه البيوع: 1/119)
۱۔ کسی پراپرٹی مثلا مکان کا سودا ہو گیا اور مشتری نے بیعانہ بھی ادا کر دیا لیکن مکمل ادائیگی میں دو تین ماہ کا عرصہ جو کہ بائع اور مشتری دونوں کو معلوم ہے (عرف کی وجہ سے یا دونوں نے صراحت کرکے وضاحت کردی )کہ مکان مشتری کو دو ماہ بعد مکمل ادائیگی کردینےپر حوالے کیا جائے گا تو ایسی صورت میں مکان پر(بائع کے) قبضہ کو فقہی اعتبار سے کیا کہا جائے گا ؟کیا یہ حبس المبیع لاستیفاء الثمن ہوگا؟(جبکہ بظاہر یہ سودا نقد نہیں دوتین ماہ بعد مکمل ادائیگی ہونی ہے)اور اس صورت میں بائع کااس مکان کو کرایہ وغیرہ پر دے کر نفع اٹھانا جائز ہے کیا یہ ملک الغیر سے استفادہ نہیں ؟ گو مکان بائع کے ضمان میں ہی ہے (جیسا کہ غصب میں چیز غاصب کے ضمان میں تو ہوتی ہے لیکن اس کے لیے نفع حلال نہیں ہوتا کیونکہ ملکیت اس کی نہیں ہوتی)۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ حبس المبیع لاستيفاء الثمن ہے باقی رہی یہ بات کہ یہ سودا نقد نہیں لہذا بائع کو استیفائے ثمن کے لیے
حبس مبیع کا حق نہ ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف میں یہ صورت نقد خرید وفروخت کی سمجھی جاتی ہے اور دو تین ماہ کا وقت قانونی کا روائی (رجسٹری وغیرہ)کے لیے دیا جاتا ہے ۔البتہ چونکہ بیع ہو چکی ہوتی ہے اس لیے بائع کا اس مکان کوکرایہ وغیرہ پر دے کرفائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔ضمان والی بات منقولات میں چلتی ہے ،غیر منقولی چیزوں میں عموما نہیں چلتی ۔
وبعین هذه الدلائل الثلاثة یستدل ابو حنیفة و ابو یوسف رحمهما الله غیر انهما یستثنیان العقار من عموم النهی لان علة النهی منتفیة فیه فان الحدیث الاخیر حدیث عبدالله بن عمرو دل ان العلة فی النهی عن بیع المبیع قبل القبض هی انه یستلزم ربح ما لم یضمن و انما یضمن الانسان ما یخاف فیه الهلاک و اما العقار فلا یخشی فیه ذلک الا نادرا (فتح الملهم 1/229)
۱۔عقار کی بیع قبل القبض بھی جائز ہے جیساکہ حنفیہ کا مفتی بہ قول (شیخین کے قول کے مطابق)ہے تو کیا کسی زمین اور پلاٹ وغیرہ کو جبکہ وہ بائع کے قبضہ میں ہی ہو اور مشتری کو حوالے نہ کیا ہو (چاہے ثمن کی مکمل وصولی نہ ہونے کی وجہ سے یا بائع کی طرف سے کوئی رکاوٹ تو نہیں لیکن مشتری نے سستی کی وجہ سے قبضہ نہیں لیا)تو کیا اس پلاٹ کو آگے بیچنا جائز ہو گا؟ کیا یہ غیر مقدور التسلیم چیز کی بیع نہیں کہلائے گی ؟اور اس معاملے میں مکان ،پلاٹ اور دکان وغیرہ کا حکم یکساں ہے یا ان میں کچھ فرق ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں پلاٹ پر قبضہ ملنے سے پہلے بھی اسے آگے بیچنا جائز ہے کیونکہ خریدی ہوئی جائداد میں آگے بیچنے کے لیے قبضہ ضروری نہیں ۔ یہ غیر مقدور التسلیم کی بیع نہیں کیونکہ غیر مقدورالتسلیم سے وہ شے مراد ہے جس کا قبضہ نہ مشتری (خریدار) خود لے سکتا ہے اور نہ مسلمانوں کی جماعت (مثلا جرگہ یا پنچائت )یا عدالت کے ذریعہ لے سکتا ہے۔اس معاملے (بیع قبل القبض ) میں مکان،پلاٹ،دکان سب کا حکم یکساں ہے ان میں کچھ فرق نہیں۔
بِخِلَافِ بَيْعِ الْمَغْصُوبِ مِنْ غَيْرِ الْغَاصِبِ أَنَّهُ يَنْعَقِدُ مَوْقُوفًا عَلَى التَّسْلِيمِ حَتَّى لَوْ سَلَّمَ يَنْفُذُ ، وَلِأَنَّ هُنَاكَ الْمَالِكَ قَادِرٌ عَلَى التَّسْلِيمِ بِقُدْرَةِ السُّلْطَانِ وَالْقَاضِي وَجَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ إلَّا أَنَّهُ لا يَنْفُذُ لِلْحَالِ لِقِيَامِ يَدِ الْغَاصِبِ صُورَةً فَإِذَا سَلَّمَ زَالَ الْمَانِعُ فَيَنْفُذُ (بدائع الصنائع4/341)
۱۔ الف ۔کیا قبضہ سے پہلے بیچنے کا مطلب ہے کہ قبضہ اور تخلیہ دونوں ضروری نہیں ؟
ب ۔ کیا عقار کی بیع کا جواز قبل القبض والتخلیۃ اسی وجہ سے ہے کہ ا س میں ہلاکت نادر الوقوع ہے؟کیا
ج ۔عقار کی بیع قبل القبض ربح مالم یضمن میں نہیں آتی ؟
د ۔ياربح مالم یضمن کا اصول منقولات کے ساتھ خاص ہے؟
ہ ۔ اگر منقولات کے ساتھ خاص ہےتو اس تخصیص کی دلیل کیا ہے؟
اللہ تعالی آپ حضرات کےعلم وعمر میں اضافہ فرمائے
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
الف ۔عقار(جائیداد )میں قبضہ سے پہلے بیچنے کا یہی مطلب ہےکہ قبضہ او رتخلیہ دونوں ضروری نہیں۔
ب ۔عقار (جائیداد)کی بیع کےقبل القبض کےجواز کی علت یہی ہے کہ اس میں ہلاکت نادر الوقوع ہے ۔
ج ۔ جس چیز کی ہلاکت نادر الوقوع ہو تو ربح مالم یضمن کی نہی اسے شامل نہیں ۔
د ۔ربح ما لم یضمن کی نہی منقولات کے ساتھ خاص ہے ۔
ہ ۔کیونکہ ضمان تو ہو گا ہی تب جب کوئی چیز ہلاک ہو اور جس میں ہلاکت کااندیشہ نہ ہو اس کا مضمون ہو نا متصور نہیں۔اسی وجہ سے حضرات فقہائے کرام نے ربح مالم یضمن کی نہی کو منقولات کے ساتھ خاص کیا ہے۔
وبعین هذه الدلائل الثلاثة یستدل ابو حنیفة و ابو یوسف رحمهما الله غیر انهما یستثنیان العقار من عموم النهی لان علة النهی منتفیة فیه فان الحدیث الاخیر حدیث عبدالله بن عمرو دل ان العلة فی النهی عن بیع المبیع قبل القبض هی انه یستلزم ربح ما لم یضمن و انما یضمن الانسان ما یخاف فیه الهلاک و اما العقار فلا یخشی فیه ذلک الا نادرا (فتح الملهم 1/229)
© Copyright 2024, All Rights Reserved